81584 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
گزشتہ دنوں میرے چچا "شمیم الظفر خان"(جو کہ میرے سسر بھی تھے) ان کا انتقال ہوگیا ہے۔ پسماندگان میں ایک بیوہ اوردو بیٹیاں ہیں،ان کا کوئی بیٹا نہیں ہےنہ کوئی بھائی بہن اورنہ والدین حیات ہیں۔
مرحوم نے اپنی رقم سے صدقہ کرنے کی وصیت کی تھی اور تجہیز اور تدفین پر خرچ کرنے کی ہدایت کی تھی جوکہ میں نے اپنے پاس سے خرچ کیا تھا،تو پوچھنایہ ہے کہ
١۔ کیا ترکہ میں سے تجہیز اور تدفین کی مذکورہ رقم منہا ہوگی ؟
۲۔ کیا مرحوم کے بھائی بہن کی اولاد ترکہ کے حصے دار ہوں گے؟مرحوم کے بھائی کے چار بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں ۔مرحوم کی بہنوں کے پانچ بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں۔
۳۔مستقبل میں بیوہ کی تجہیز اور تدفین کے لئے کچھ رقم مختص کرنا چاہتے تھے کیا ترکہ میں سے وہ رقم منہا کر سکتے ہیں؟ برائے مہربانی ترکہ کی تقسیم کے حوالے سے ہدایت فرمائیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
(١،۲)اگرمرحوم کے کفن دفن کے مذکورہ اخراجات آپ نے تبرعا کئے ہیں تو پھر ترکہ سے منہانہیں ہونگے لیکن اگرآپ نے یہ اس نیت سے کئے تھے کہ بعد میں ترکہ سے لے لوں گا تو پھر سب سےپہلےمرحوم کے ترکہ سے کفن دفن کے مذکورہ اخراجات نکالے جائیں گے،اس کے بعد اگر میت پرکوئی قرض ہے تو وہ کل مال سے ادا کرینگے،اگرمرحوم نے بیوی کا مہر ادا نہ کیاہو اوربیوی نے معاف بھی نہ کیا ہو وہ بھی قرض سے اسے بھی ترکہ سے اداکرینگے،اس کے بعد میت نے تجہیزوتکفین کے علاوہ خرچ کرنے جو وصیت ہے ایک تہائی ترکہ تک اسے نافذ کرینگے، اس کے بعد اگر مرحوم کےانتقال کے وقت صرف یہی لوگ زندہ ہوں جوسوال میں مذکورہیں توکل منقولہ،غیرمنقولہ ترکہ میں سے مرحوم کی بیوہ کو %12.5،ہربیٹی کو %33.33 اوربھائی کے ہربیٹے کو %5.21 حصہ ملے گا، بھائی کی بیٹیااوربہنوں کی جملہ اولاد مرحوم کی میراث سے شرعاً محروم ہوں گی۔ البتہ بالغ ورثہ اگر اپنے اپنے حصوں میں سےاپنی مرضی سے ان کو کچھ دینا چاہیں تو ایسا کرنا شرعاً ممنوع نہیں ہے۔
(۳)مستقبل میں بیوہ کی تجہیزاور تدفین کے لئے ترکہ سے رقم مختص کرنا صحیح نہیں ہے،کیونکہ اب یہ ورثہ کی ملک ہوچکاہے،بیوہ کا اپناحصہ میراث میں ہے اس سے اس کی تجہیز وتکفین ہوجائے گی،البتہ اگرسب ورثہ بالغ ہوں اوروہ اجازت دیدیں تو پھر یہ رقم ترکہ سے بھی مختص ہوسکتی ہے۔
حوالہ جات
قال اللہ تعالی :
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ.... وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْن [النساء/11]
وفی البحر الرائق (8/ 567)
والعصبة أربعة أصناف: عصبة بنفسه وهو جزء الميت وأصله وجزء أبيه وجزء جده الأقرب.
سیدحکیم شاہ عفی عنہ
دارالافتاء جامعۃ الرشید
9/4/1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سید حکیم شاہ | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |