021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بلڈ بنک میں خون کے عطیات کےلیے اکاؤنٹ بنانا
81643جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

السلام علیکم!محترم مفتی صاحب !

عرض ہے کہ FFP ( فاؤنڈیشن فائیٹنگ پاورٹی ) ایک رفاہی ادارہ ہےجو کہ مختلف شعبہ جات میں خدمات سرانجام دے رہا ہے ، ان میں سے ایک شعبہ میڈیکل  بھی ہے جس کے ذریعے مستحقین کو مختلف خدمات (ٹیسٹ ،آپریشن ،خون کا عطیہ اور دوائیاں وغیرہ) فراہم کی جاتی ہیں ۔

” عطیہ خون“ کے سلسلہ میں اکثر اوقات یہ مشکل پیش آتی ہے کہ اگر صرف بوقت ضرورت ہی ڈونرز ( خون عطیہ کرنے والے کو تلاش کیا جائے تو وہ میسر نہیں ہوتے یا پھر مستحق مریض کو جتنی کثیر مقدار میں خون لگنا ہے ( جیسا کہ کینسر کا مریض)تو ڈونرز کی تعداد کم ہوتی ہے ، اب اگر بغیر ڈونرز کے بلڈ بینک سے رابطہ کیا جاۓتو خون کی بوتل بہت مہنگی ملتی ہے۔از راہ کرم رہنمائی فرمائیں کہ اگر FFP یہ اقدام کرے کہ بلڈ بینک میں اپنااکاؤنٹ کھولے اور ڈونرز اس میں جس وقت چاہیں خون عطیہ کریں تاکہ بوقت ضرورت مستحق مریض کو اس اکاؤنٹ سے فون کی بروقت فراہمی کی جاسکےتو کیا یہ طریقہ شرعاً درست ہے ؟

نوٹ : بلڈ بینک دونوں صورتوں میں پیسے وصول کرتا ہے، ڈونرز ہونےکی صورت میں صرف خون اسکرینگ کے پیسے وصول کیے جاتے ہیں جو کہ کم ہوتے ہیں اور ڈونرز نہ ہونے کی صورت میں اسکرینگ اور خون دونوں کے پیسے وصول کیےجاتے ہیں جو کہ زیادہ ہوتے ہیں۔اکاؤنٹ کی موجودگی میں بھی بلڈ بینک کو پیسوں کی ادائیگی کی جائے گی۔صرف یہ فائدہ ہو گا کہ مریض کے لئے خون کی بروقت فراہمی ممکن ہو جائے گی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ایمرجنسی کے وقت ضرورت مند لوگوں کو خون فراہم کرنے کےلیے، خون کے عطیات لے کر اسٹاک کرنا شرعاً درست ہے،اور اس مقصد کےلیے بلڈ بنک میں اکاؤنٹ بنانے کی بھی گنجائش ہے،تاکہ بوقت ضرورت فوری طورپر خون دستیاب ہو۔ البتہ اس کی خرید وفروخت کرنا یا اس نیت سے اسٹاک کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، تاہم بلڈبینک کو خون کی صفائی اور حفاظت وغیرہ پر آنے والے حقیقی اخراجات لینے کی اجازت ہے۔

حوالہ جات
صحيح البخاري (3/ 84):
2238 - حدثنا حجاج بن منهال، حدثنا شعبة، قال: أخبرني عون بن أبي جحيفة، قال: رأيت أبي اشترى حجاما، فأمر بمحاجمه، فكسرت، فسألته عن ذلك قال: «إن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن ثمن الدم، وثمن الكلب، وكسب الأمة، ولعن الواشمة والمستوشمة، وآكل الربا، وموكله، ولعن المصور»
فتح الباري - ابن حجر (4/ 427):
الحكم الخامس ثمن الدم واختلف في المراد به فقيل أجرة الحجامة وقيل هو على ظاهره والمراد تحريم بيع الدم كما حرم بيع الميتة والخنزير وهو حرام إجماعا أعني بيع الدم وأخذ ثمنه۔

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

14/ربیع الثانی1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے