021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
Online earningsجی ٹی ایم (GTM) ایپ کا حکم
81641.اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلدلال اور ایجنٹ کے احکام

سوال

سوال:  گوگل پلے سٹور پر ایک ایپ ہے GTM کے نام سے جس پر کام کرنے سے پیسے ملتے ہیں۔ کام یہ ہوتا ہے کہ روز کے ٹاسک ہوتے ہیں،  ان ٹاسکس میں ویڈیوز کو لائیک کرنا ہوتا ہے اور کسی قسم کی غلط ویڈیو بھی نہیں ہوتی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایپ والے پہلے کچھ رقم سیکورٹی یا رجسٹریشن کے طور پر لیتے ہیں، پھر چھ ماہ کے بعد یہ رقم واپس کر دیتے ہیں اور ویڈیو لائیک کرنے پر پیسے دیتے رہتے ہیں۔ نیز اس ایپ پر دوسروں کو لگانے سے بھی روزانہ رقم ملتی ہے۔  کیا یہ کمائی سود میں آتی ہےیا نہیں؟

 نوٹ : اس میں جو رقم ہم دیتے ہیں وہ انوسٹ نہیں ہے، وہ سکیورٹی یا رجسٹریشن ہوتی ہے کیوں کہ چھ ماہ بعد واپس بھی ہوتی ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اس سوال کے جواب سے پہلے بطور تمہید یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ شریعت مطہرہ میں فقط سود ہی ناجائز و حرام نہیں ہے بلکہ اس کے علاوہ بھی حرام اموال کی اقسام ہیں اور ان کا لین دین سود کی ہی طرح ناجائز ہے۔

 اس تمہید کے بعد سوال میں مندرجہ ذیل مفاسد پائے جاتے ہیں:

1.     ویڈیوز، تصاویر وغیرہ دیکھنے کا کام اجارہ (ملازمت) کا فعل ہے جس میں دیکھنے والے کو ویڈیو یا تصویر دیکھنے کی اجرت دی جاتی ہے۔ یہ کوئی ایسی منفعت نہیں جو اصلاً مقصود ہو اور شرعاً اس کی اجرت لی جا سکے۔ اس کے برعکس یہ کام جعل سازی کے لیے اکثر استعمال ہوتا ہے، مثلاً فیس بک اور یوٹیوب چینل پر غلط طریقے سے ویورز لا کر یو ٹیوب، گوگل ایڈسینس اور اشتہار دینے والی کمپنیوں کو بھی دھوکہ دیا جاتا ہے۔ لہذا شرعاً یہ کام کرنا اور اس کی اجرت لینا درست نہیں ہے۔

2.     یہ ویڈیوز، تصاویر وغیرہ دیکھنے کے کام کے لیے  رقم قرض دی جاتی ہے اور اس قرض کی بنیاد پر اجارے کا حق ملتا جو شرعاً سود بنتا ہے۔

مندرجہ بالا تفصیل کی روشنی میں ان ویڈیوز اور تصاویر کے لیے انویسٹمنٹ کرنا اور انہیں دیکھنا درست نہیں ہے  اوراس کی اجرت بھی شرعاً درست نہیں ہے۔ نیز اس کام میں مزید ممبر بنانا بھی جائز نہیں ہے۔

حوالہ جات
قال الحصكفي ؒ: "وشرعا (تمليك نفع) مقصود من العين (بعوض) حتى لو استأجر ثيابا أو أواني ليتجمل بها أو دابة ليجنبها بين يديه أو دارا لا ليسكنها أو عبدا أو دراهم أو غير ذلك لا ليستعمله بل ليظن الناس أنه له فالإجارة فاسدة في الكل، ولا أجر له لأنها منفعة غير مقصودة من العين بزازية."
علق عليه ابن عابدين ؒ: "(قوله مقصود من العين) أي في الشرع ونظر العقلاء، بخلاف ما سيذكره فإنه وإن كان مقصودا للمستأجر لكنه لا نفع فيه وليس من المقاصد الشرعية، وشمل ما يقصد ولو لغيره لما سيأتي عن البحر من جواز استئجار الأرض مقيلا ومراحا، فإن مقصوده الاستئجار للزراعة مثلا، ويذكر ذلك حيلة للزومها إذا لم يمكن زرعها تأمل."
(الدر المختار و حاشية ابن عابدين، 6/4، ط: دار الفكر)

محمد اویس پراچہ     

دار الافتاء، جامعۃ الرشید

15/ ربیع الثانی 1445ھ 

 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس پراچہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے