81587 | نکاح کا بیان | نکاح کے جدید اور متفرق مسائل |
سوال
کفریہ جملے کی وجہ سے اگر کوئی تجدید نکاح کرنا چاہے۔ اپنی بیوی سے اجازت لے کہ میں تم سے اتنے نئے مہر میں تم سے دوبارہا نکاح کرنا چاہتا ہوں تم مجھے اجازت دوں میں تم سے دوبارہا نکاح کر سکوں۔ بیوی اجازت دیتی ہے اور کہتی ہے مجھے قبول ہے۔ تو پھر شوہر اس بیوی کا وقیل بن کر دو گواہوں کے سامنے جاتا ہے اور کہتا ہے کہ تم لوگ گواہ رہنا میں نے اپنی سابقہ بیوی سے اتنے مہر میں دوبارہ نکاح کیا اس نے قبول کیا اور میں نے بھی اس کو قبول کیا۔ اس طرح تجدید نکاح کا ہو جاتا ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
تجدیدنکاح کااصل طریقہ یہ ہے کہ خطبہ نکاح پڑھنے کے بعد دو مسلمان عاقل بالغ مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ ایجاب و قبول کر لیا جائے۔ البتہ خطبہ پڑھنا سنت ہے، لہذا اگر خطبہ کے بغیر دو گواہوں کے سامنے ایجاب و قبول کرلیا جائے، تب بھی نکاح ہوجائے گا۔
صورت مسئولہ میں چونکہ شوہر اپنی بیوی کی طرف سے وکیل ہے اور دو گواہوں کے سامنے نئے مہر کے ساتھ ایجاب اور قبول کرلیا ہے تو نکاح ہوگیاہے۔
حوالہ جات
قال العلامة الحصكفي رحمه الله:(ويتولى طرفي النكاح واحد) بإيجاب يقوم مقام القبول في خمس صور: كأن كان وليا، أو وكيلا من الجانبين، أو أصلا من جانب ووكيلا، أو وليا من آخر، أو وليا من جانب وكيلا من آخر: كزوجت بنتي موكلي. (الدر المختار مع رد المحتار:224/4)
قال العلامة المرغيناني رحمه الله: النكاح ينعقد بالإيجاب والقبول بلفظين يعبر بهما عن الماضي ؛ لأن الصيغة وإن كانت للإخبار وضعا فقد جعلت للإنشاء شرعا دفعا للحاجة ........قال: ولا ينعقد نكاح المسلمين إلا بحضور شاهدين حرين عاقلين بالغين مسلمين رجلين أو رجل وامرأتين. (الهداية في شرح بداية المبتدي:185/1)
قال العلامة ابن عابدين رحمه الله: والاحتياط أن يجددالجاهل إيمانه كل يوم ويجدد نكاح امرأته عند شاهدين في كل شهر مرة أو مرتين، إذ الخطأ وإن لم يصدر من الرجل فهو من النساء كثير. (رد المحتار :42/1)
عبدالہادی
دارالافتاء، جامعۃ الرشید، کراچی
14ربیع الثانی 1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبدالهادى بن فتح جان | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |