021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
چندگھر یلو مسائل سےمتعلق مشاورت
81635متفرق مسائلمتفرق مسائل

سوال

میرے تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں جو کہ الحمدللہ سب شادی شدہ ہیں اور دین کے مطابق زندگی گزارنا چاہتے ہیں ۔ تینوں بیٹوں کی بیویاں بھی مذہبی ہیں ۔ میری ایک بہو میری بہن کی بیٹی جبکہ دو بہوئیں میرے دو بھائیوں کی بیٹیاں ہیں ۔ ہم تین بھائی ہیں اور ہماری چھ بہنیں ہیں ۔ عرض یہ ہے کہ میں نے تقریباً 35 سال میڈیسن کمپنی میں ملازمت کی ہے اور اپنا ایک منزلہ مکان بنایا ۔ سات سال پہلے تقریبا 20 لاکھ روپے قرض لے کر مکان کی دوسری منزل بنائی تاکہ تینوں بیٹے اوپر کی منزل میں شفٹ ہوجائیں اور نیچے والا حصہ کرایے پر دے کر قرض کم کیا جائے لیکن فیملی کی وجہ سے نچلا حصہ کرایے پر نہ دے سکا ۔ اپنا کاروبار کرنے کی ناکام کوشش میں 10 لاکھ کا مزید مقروض ہو گیا ۔ اس طرح میرے ذمّہ 30 لاکھ کا قرض ہوگیا ۔ اب صورتحال یہ ہے کہ تینوں بیٹے اپنا اپنا کام کررہے ہیں اور تقریباً یکساں کما رہے ہیں ۔ میں نے انہیں ان کی بہتری کیلئے جوائنٹ فیملی سسٹم سے نکال کر علیحدہ علیحدہ کر دیا ہے ۔ آپ کی جانب سے درج ذیل امور میں شرعی رہنمائی چاہیے ۔

 1- 30 لاکھ کا قرضہ اتارنے کے لئے مجھے کیا کرنا چاہیے ۔ موجودہ مکان تقریباً 1 کروڑ سے زائد مالیت کا ہے کیا اسے بیچ کر قرضہ اتار دیا جائے اور بقیہ رقم کا چھوٹا مکان لے لیا جائے یا گھر کا ایک پورشن کرایے پر دے کر بچوں کو کہا جائے کہ وہ اپنی رہائش کا علیحدہ انتظام کریں یا مفتیانِ کرام کوئی اور بہتر طریقہ بتادیں ۔

 2- تینوں بچے اب خود مختار ہیں تو میرا اور میری بیوی کے کھانے پینے اور علاج کا ذمہ دار کون ہوگا؟

 3- الحمدللہ میرے گھر پر چھ بہنوں ، تین بیٹیوں ، دو بھائیوں اور دوسرے رشتہ داروں کا آنا جانا رہتا ہے ۔ مہمانوں کے اکرام کیلئے کیا ایک ہی بیٹے کی فیملی کو ذمّہ دار ٹھہرایا جائے یا مہمانوں کو تینوں بیٹوں میں تقریباً برابر تقسیم کر دیا جائے ۔ مثلاً دو بہنوں کی فیملی ایک بیٹے کے ذمہ ، دو بہنوں کی فیملی دوسرے بیٹے کے ذمہ، بقیہ دو بہنوں کی فیملی تیسرے بیٹے کے ذمہ وغیرہ وغیرہ ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

۱۔آپ کا مسئلہ بنیادی طور پرشرعی نہیں بلکہ انتظامی نوعیت کا ہے، لہذا اس بارے میں آپ اپنے اور اپنے بچوں کی مالی ،جسمانی اور ذہنی کیفیت  اوررجحان کو سامنے رکھتے ہوئے ان کی مشاورت سے جو مناسب سمجھیں اس پر عمل کریں۔آپ کی ذکر کردہ صورتیں بھی مناسب حل ہیں۔لیکن مکان بیچنے کے بجائے بچت کے ذریعہ اس قرض کو ادا کیاجائے،اورخرچ میں کفایت شعاری  ہی بچت کا بہترین طریقہ ہے اور دوسرے درجے میں کم درجے کے مختصر اور جز وقتی آمدنی کے ذرائع پیدا کر کے بھی آمدن کو بڑھایا جاسکتا ہے۔

۲۔اگر والدین مالی اور جسمانی لحاظ سے خدمت کے محتاج ہوں تو یہ ذمہ داری شرعا تمام بیٹوں پر مساوی طور پر عائد ہوتی ہے ،البتہ اس کی انتظامی شکل کیا ہو؟ اس بارے میں آپس کا مشورے سے تشکیل اور تقسیم کار بہتر طریقہ ہے۔

۳۔ دوسرا یعنی تقسیم کاطریقہ مناسب ہے۔

حوالہ جات
۔۔۔۔۔

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۱۴ربیع الثانی۱۴۴۵ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے