021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
امامِ مسجد کو تنخواہ نہ دینا اور صدقۃ الفطر دینا
81608زکوة کابیانصدقہ فطر کے احکام

سوال

ہمارے گاؤں میں اکثر مساجد میں امام صاحب کو لوگ تنخواہ نہیں دیتے، نہ ہی اس کی ضروریات کا انتظام کرتے ہیں۔ جتنے بھی خرچے ہوتے ہیں وہ امام صاحب خود مزدوری کر کے اٹھاتا ہے۔ لوگ پورے سال میں ایک روپیہ بھی امام صاحب کو نہیں دیتے، لیکن جب رمضان کا مہینہ آتا ہے، امام صاحب پورا مہینہ تراویح بھی پڑھاتے تو اس کے بعد عید الفطر میں لوگ صدقۂ فطر امام صاحب کو دیتے ہیں۔ بعض لوگ صدقۂ فطر کو امام صاحب کا حق سمجھتے ہیں، اگرچہ اس کے رشتہ داروں یا پڑوسیوں میں بہت زیادہ غریب لوگ ہی کیوں نہ ہوں، پھر بھی صدقۂ فطر امام صاحب کو دیتے ہیں۔ امام صاحب کی تنخواہ تو نہیں ہوتی، اگر لوگ صدقۂ فطر بھی دیں تو شاید وہ تراویح پڑھانے سے انکار کردے، اس لیے بھی لوگ صدقۂ فطر امام صاحب کو دیتے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا امام کو صدقۂ فطر دینا جائز ہے؟ اگر صاحبِ نصاب ہو تو کیا حکم ہے اور اگر صاحبِ نصاب نہ ہو تو کیا حکم ہے؟ اگر رشتہ داروں یا پڑوسیوں میں زیادہ غریب ہو تو پھر صدقۂ فطر کس کو دینا چاہیے؟ امام صاحب کو، رشتہ دار کو یا پڑوسی کو؟ صدقۂ فطر کو امام صاحب کا حق سمجھنا صحیح ہے؟ اگر امام صاحب کو تنخواہ اور صدقۃ الفطر نہ دیں اور امام صاحب تراویح پڑھانا چھوڑ دے تو کیا امام صاحب گناہ گار ہوگا؟ غیر شادی شدہ طالب علم جس کا پورا خرچہ والد اٹھاتا ہے، وہ کوئی کمائی نہیں کرتا، اگر وہ تراویح پڑھائے تو کیا اس کو صدقۂ فطر دینا جائز ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ان سوالات کے جوابات سے پہلے بطورِ تمہید یہ بات سمجھنی چاہیے کہ آپ کے علاقے والوں کا امامِ مسجد کو تنخواہ نہ دینا شرعا درست طرزِ عمل نہیں، ان پر لازم ہے کہ امامِ مسجد کے لیے معقول تنخواہ مقرر کریں، اتنی تنخواہ جس میں انسان باعزت زندگی گزار سکتا ہو اور اپنی ضروریاتِ زندگی بسہولت پوری کر سکتا ہو۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو گناہ گار ہوں گے؛ کیونکہ یہ ان کی دینی ضرورت ہے۔  

اس تمہید کے بعد آپ کے سوالات کا جواب یہ ہے کہ صدقۂ فطر کو امام کا حق سمجھنا درست نہیں۔ شرعا کسی بھی فقیر (ایسا شخص جو صاحبِ نصاب نہ ہو) کو بلا عوض مالک بنا کر صدقۂ فطر دینا جائز ہے۔ لہٰذا اگر امامِ مسجد صاحبِ نصاب ہو تو اس کو صدقۂ فطر دینا جائز نہیں، اور اگر وہ صاحبِ نصاب نہ ہو تو اس کو فقیر ہونے کی بنیاد پر صدقۂ فطر دینا درست ہے، لیکن تنخواہ نہ دینے کی وجہ سے امامت کے عوض میں دینا جائز نہیں، چنانچہ اگر عرفاً امام یا لوگ اس کو امامت کے عوض میں امام کا حق سمجھتے ہوں، نہ دینے والے پر نکیر کرتے ہوں یا امام صاحب اس کا مطالبہ کرتا ہو تو ایسی صورت میں ان لوگوں کا صدقۂ فطر ادا نہیں ہوگا۔ اگر اہلِ محلہ امامِ مسجد کو تنخواہ نہیں دیتے تو وہ نماز یا تراویح نہ پڑھانے کی وجہ سے گناہ گار نہیں ہوگا۔  

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ رشتہ داروں، پڑوسیوں اور امامِ مسجد میں سے کس کو صدقۂ فطر دینا زیادہ بہتر ہے تو اگر رشتہ داروں میں مستحقِ زکوۃ لوگ موجود ہوں تو ان کو دینا زیادہ بہتر ہے، ان کے بعد پڑوسیوں اور امامِ مسجد میں سے جو زیادہ ضرورت مند ہو اسے دینا چاہیے، دینی خدمات میں مصروف ہونے کی وجہ سے امامِ مسجد کو دینا زیادہ بہتر ہے۔  

طالبِ علم اگر مستحقِ زکوۃ ہے تو اس کو صدقۂ فطر دینا درست ہے، لیکن تراویح پڑھانے کے عوض میں دینا جائز نہیں۔

حوالہ جات
الدر المختار (2/ 353):
( و ) كره ( نقلها إلا إلى قرابة ) بل في الظهيرية لا تقبل صدقة الرجل وقرابته محاويج حتى يبدأ بهم فيسد حاجتهم ( أو أحوج ) أو أصلح أو أورع أو أنفع للمسلمين ( أو من دار الحرب إلى دار الإسلام أو إلى طالب علم ) وفي المعراج: التصدق على العالم الفقير أفضل.
رد المحتار (2/ 353):
قوله (بل في الظهيرية الخ) إضراب انتقالي عن عدم كراهة نقلها إلى القرابة إلى تعيين النقل إليهم وهذا نقله في مجمع الفوائد معزيا للأوسط عن أبي هريرة مرفوعا إلى النبي أنه قال يا أمة محمد والذي بعثني بالحق لا يقبل الله صدقة من رجل وله قرابة محتاجون إلى صلته ويصرفها إلى غيرهم والذي نفسي بيده لا ينظر الله إليه يوم القيامة اه رحمتي. والمراد بعدم القبول عدم الإثابة عليها وإن سقط بها الفرض لأن المقصود منها سد خلة المحتاج وفي القريب جمع بين الصلة والصدقة. وفي القهستاني: والأفضل إخوته وأخواته ثم أولادهم ثم أعمامه وعماته ثم أخواله وخالاته ثم ذوو أرحامه ثم جيرانه ثم أهل سكته ثم أهل بلده كما في النظم اه…. قوله ( أفضل ) أي من الجاهل الفقير، قهستاني.
الدر المختار (2/ 356):
دفع الزكاة إلى صبيان أقاربه برسم عيد أو إلى مبشر أو مهدي الباكورة جاز، إلا إذا نص على التعويض ……. ولو دفعها المعلم لخليفته إن كان بحيث يعمل له لو لم يعطه صح، وإلا لا.
رد المحتار (2/ 356):
( إلا إذا نص على التعويض ) ينبغي أن يكون مبنيا على القول بأنه إذا سمى الزكاة قرضا لا تصح وتقدم أن المعتمد خلافة وعليه فينبغي أنه إذا نواها صحت وإن نص على التعويض، إلا أن يقال: إذا نص على التعويض يصير عقد معاوضة والملحوظ إليه في العقود هو الألفاظ دون النية المجردة والصدقة تسمى قرضا مجازا مشهورا في القرآن العظيم، فيصح إطلاقه عليها، بخلاف لفظ العوض إذ لا عمل للنية المجردة مع اللفظ الغير الصالح لها ولذا فصل بعضهم فقال إن تأول القرض بالزكاة جاز وإلا فلا، تأمل ……… قوله ( وإلا لا ) أي لأن المدفوع يكون بمنزلة العوض ط. وفيه أن المدفوع إلى مهدي الباكورة كذلك، فينبغي اعتبار النية. ونظيره ما مر في أول في كتاب الزكاة فيما لو دفع إلى من قضى عليه بنفقته من أنه لا يجزيه عن الزكاة إن احتسبه من النفقة وإن احتسبه من الزكاة يجزيه وقيل لا كما في التاترخانية، لكن فيها أيضا: قال محمد إذا هلكت الوديعة في يد المودع وأدى إلى صاحبها ضمانها ونوى عن زكاة ماله قال إن أدى لدفع الخصومة لا تجزيه عن الزكاة اه فتأمل.  وفيها من صدقة الفطر: لو دفعها إلى الطبال الذي يوقظهم في السحر يجوز؛ لأن ذلك غير واجب عليه، وقد قال مشايخنا: الأحوط والأبعد عن الشبهة أن يقدم إليه أولا ما يكون هدية ثم يدفع إليه الحنطة.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

        15/ربیع الثانی/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے