021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
خون کے بدلہ خون دینے کاحکم
81648جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

 دورحاضر میں جتنے بھی بلڈبینک اس ملک میں موجود ہیں ،خواہ وہ سرکاری نوعیت کے ہوں یاغیرسرکاری،سب کاطریقہ کاریہ ہوتاہےکہ وہ خون عام طورپررضاکارانہ طور پر عطیہ کی صورت میں اورکبھی عوض کے بدلہ میں لیتے ہیں،چنانچہ بلڈبینک کی تعریف  میں دونوں ہی امورکاخیال رکھاجاتاہے:ھوعبارۃ عن مرکز مخصص لجمع الدم من المتبرعین اومن الذین معطون دمائہم مقابل ثمن معین۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

حادثات کی کثرت کی وجہ سے خون کی بکثرت ضرورت ہوتی ہے،اسی طرح آپریشنز وغیرہ میں بھی ایمرجنسی بنیادوں پرخون درکارہوتاہے،فوری طورپرخون موجود نہ  ہونے کی صورت میں انسانی جان کے ضیاع کاخطرہ ہوتاہے،اس لئے اہل علم نے بلڈبینک کے قیام کی اس شرط کے ساتھ  اجازت دی ہے کہ خون بغیرکسی عوض کے دیاجائے ،خون  کے لین دین کوکاروبارکی صورت دیناکسی صورت جائز نہیں،اگرکوئی بینک خون کے بدلہ رقم لیتاہے تویہ جائزنہیں۔

بعض بینک رقم تونہیں لیتے،لیکن ان کی طرف سے یہ مطالبہ ہوتاہے کہ جتنے خون کی ضرورت ہے اتناخون ہمیں فراہم بھی کیاجائے،اس کی وجہ یہ ہوتی ہےکہ تاکہ ان کے پاس خون کی ایک مخصوص مقدار محفوظ رہے،کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں مسئلہ نہ ہو،مقصد بظاہرکاروبارنہیں ہوتا،اس لئے عمومی مصلحت کوسامنے رکھتے ہوئے اس کی گنجائش معلوم ہوتی ہے۔

حوالہ جات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محمد اویس

دارالافتاء جامعة الرشید کراچی

      ۱۵/ربیع الثانی ۱۴۴۵ ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے