021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
غصےمیں بیوی کو کہا”جاؤآزادہو،جس سےچاہوشادی کرلو”
81656طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

 سوال:شوہربیوی کو شدید غصے میں کہہ دے کہ دونوں ہاتھ جوڑ کر کہتا ہوں کہ جاؤ آ زاد ہو، جس سے چاہو شادی کرلو اور یہ الفاظ کئی مرتبہ کہہ دے 2۔جاو اپنے میکے میں مجھے تم سے عرض نہیں اور جو چاہو وہی کرلو۔توکیاحکم ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں مذکورہ جملہ " جاؤ، آزاد ہو،جس سےچاہوشادی کرلو " طلاق کے باب میں کنائی جملہ شمارہوتاہے، اس جملے کے ذریعہ طلاق اس وقت واقع ہوتی ہے جب شوہر کی نیت طلاق دینے کی ہو  یا اگر عورت بار بار طلاق کا مطالبہ کر رہی ہو  اور شوہر اس کے مطالبے کے جواب میں یہ جملہ کہے، یا شوہر غصے کی حالت میں اس جملے کو کہے، تو ان صورتوں میں بیوی کو طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ اور آخری دونوں صورتوں میں اگر شوہر یہ دعوی کرے کہ اس کی نیت طلاق دینے کی نہیں تھی، تو قضاء شوہر کا یہ دعوی معتبر نہیں ہو گا۔

سوال میں ذکر کر وہ صورت میں شدید غصےکی حالت میں   یہ الفاظ کہےگئےہیں،لہذا بیوی پرایک طلاق بائنہ واقع ہوگئی ہے،چونکہ یہ طلاق بائن کےالفاظ میں سےہےاورطلاق بائن ایک دفعہ واقع ہوجائےتونکاح ختم ہونےکی وجہ سےبیوی  مزیدطلاق کامحل نہیں رہتی ،لہذا اس کےبعد یہی لفظ دویاتین مرتبہ کہنےیادوسرالفظ( جاو اپنے میکے میں مجھے تم سے عرض نہیں اور جو چاہو وہی کرلو)کہنے سےمزیدکوئی طلاق واقع نہیں ہوگی،طلاق چونکہ ہوگئی ہے،لہذا بیوی عدت گزارکرکہیں اورشادی کرسکتی ہےاوراگرسابقہ شوہردوبارہ شادی کرناچاہےتووہ بھی نئےسرےسےنکاح کرکےدوبارہ ساتھ رہ سکتاہے۔

حوالہ جات
"الدر المختار" 3/296:
" (كنایتہ [الطلاق]) عند الفقهاء (مالم يوضع له) أي الطلاق، (واحتمله وغيره (ف) الكنایات (لاتطلق بها) قضاء إلا بنية أو دلالة الحال) وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب. فالحالات ثلاث: رضا، وغضب، ومذاكرة، والكتابات ثلاث: ما يحتمل الرد، أو ما يصلح للسب، أو لا ولا .... ففي حالة الرضا) أي غير الغضب والمذاكرة (تتوقف الأقسام الثلاثة تأثيرا (على نية) للاحتمال
والقول له. (وفي الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع، وإلا لا، (وفي مذاكرة الطلاق) يتوقف (الأول فقط) ويقع بالأخيرين وإن لم ينو، لأن مع الدلالة لا يصدق قضاء في نفي النية؛ لأنها أقوى،لكونها ظاهرة، والنية باطنة۔
"الدر المختار للحصفكي" 3 / 338:
(لا) يلحق البائن (البائن)۔۔۔۔إذا أمكن جعله إخبارا عن الاول: كأنت بائن بائن، أو أبنتك بتطليقة فلا يقع لانه إخبار فلا ضرورة في جعله إنشاء، بخلاف أبنتك  بأخرى أو أنت طالق بائن۔۔۔۔أو قال نويت البينونة الكبرى لتعذر حمله على الاخبار فيجعل إنشاء۔
" رد المحتار"11/177:
(قوله:تأثيرا)تميزمحول عن الفاعل:أي يتوقف تأثيرالأقسام الثلاثة على نية،ط
(قوله:للاحتمال) لما ذكرنا من أن كل واحد من الألفاظ يحتمل الطلاق وغيره، والحال لا تدل على أحدهما،فيسأل عن نيته، ويصدق في ذلك قضاء ۔
". رد المحتار: (11/179)
" والحاصل أن الأول ما يحتمل الرد يتوقف على النية في حالة الرضا والغضب والمذاكرة، والثاني ما يصلح للب) في حالة الرضا والغضب فقط، ويقع في حالة المذاكرة بلانية، والثالث [مالاًيحتمل الرد، وما لا يحتمل السب ) يتوقف عليها في حالة الرضا فقط، ويقع حالة الغضب والمذاكرة بلانية."

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی

13/ربیع الثانی    1445ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے