021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
وکیل بالشراء کا اپنی چیز موكل کو بیچنا
81600وکیل بنانے کے احکاممتفرّق مسائل

سوال

                   فقہ حنفی راجح قول کے مطابق فتوی درکار ہے! زید نے اقبال سے کہا کہ مجھے مفتی تقی عثمانی صاحب کا ایک ”آسان ترجمہ قرآن“ خرید کر گھر پہنچا دو۔ اقبال کے پاس ”آسان ترجمہ قرآن“ اپنا ذاتی ایک سال پہلے سے خریدا ہوا پڑا تھا، بلکل نیا پڑا ہوا تھا، ایک دفعہ بھی استعمال نہیں کیا ہوا تھا۔ اقبال نے سوچا کہ مجھے ”آسان ترجمہ قرآن“ فی الحال نہیں چاہیے تو میں اپنا خریدا ہوا ”آسان ترجمہ قرآن“ زید کو بیچ دیتا ہوں۔ چونکہ ایک سال پہلے 3000 کا خریدا تھا جبکہ آج کی تاریخ میں ”آسان ترجمہ قرآن“ کا ریٹ 4200 ہو چکا ہے ۔لہذا اقبال نے زید کو ”آسان ترجمہ قرآن“ گھر پہنچا دیا اور زید سے پورانے ریٹ کی بجائے نئے ریٹ پر پیسے وصول کیے اور اقبال نے زید کو نہیں بتایا کہ ”آسان ترجمہ قرآن“ اقبال کا اپنا پہلے سے خریدا ہوا دیا ہے۔ اقبال نے ایک سال پورانا ”آسان ترجمہ قرآن“ زید کو بیچا ،لیکن وہ بلکل آج کے ”آسان ترجمہ قرآن“ والا ہی ہے، وہی کوالٹی کا کاغذ، وہی گولڈن رنگ کی جلد، وہی پرنٹینگ، کچھ فرق نہیں ہے۔ اب اقبال کو دل میں تکلیف ہو رہی ہے کہ کہیں میں نے زید کو غلط طریقے سے بیچ کر حرام کے پیسے تو نہیں کمائے۔

سوال:۔ ۱) کیا اقبال نے زید کے ساتھ دھوکا کیا؟ کیا اقبال نے 1200 روپے کمائے کیا یہ حرام امدنی ہے؟

۲)۔ اگر حرام آمدنی ہے تو پھر اب اسکا حل کیا ہے؟ کیونکہ اگر اقبال نے زید کو سچ بتایا تو زید آئندہ اقبال پر بھروسہ نہیں کرے گا اور دونوں کی دوستی بھی خراب ہو جائے گی ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر کوئی شخص دوسرے کو یہ کہتا ہے کہ آپ میرے لیے بازار سے فلاں چیز لے آؤ ،تو اس شخص کے لیے یہ جائز نہیں  کہ وہ یہی اپنی چیززید کو بتائے بغیر   اسے بیچ دے ۔ لہذا مذکورہ بالا صورت میں اقبال کے لیےیہ  جائزنہ تھا   کہ وہ اپنی  کتاب پرانی یا نئی قیمت پر زید کو بیچے ۔ اب اس کا حل یہ ہے کہ  اقبال زید کو صورت حال بتا کر اس کو 4200 روپے واپس کرے اور اس سے اپنا " آسان ترجمہ قرآن "لے لے ۔اس کے بعد اگر  زید خود اقبال کا یہ "    آسان ترجمہ قرآن"اس سے خریدنا چاہے تو جس قیمت  پر اتفاق ہو ،خریداری درست ہے ۔ اگر بیع ممکن نہ ہو تو ہبہ کی نیت کرے اور ثمن آہستہ آہستہ واپس کردے ۔البتہ اگر  ان کو بتانے میں دوستی خراب ہورہی ہو تو یہ بھی گنجائش ہے کہ وہ رقم زید کو کسی اور عنوان سے واپس کردیں، مثلاً ہدیہ اور تحفہ کے نام سے واپس کردیں۔

حوالہ جات
قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم :لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق .(موطا إمام مالك ،ح 899)
قال العلامة الكاساني رحمه اللہ  تعالی :الوكيل بالشراء لا يملك الشراء من نفسه؛ لأن الحقوق في باب الشراء ترجع إلى الوكيل، فيؤدي إلى الإحالة: وهو أن يكون الشخص الواحد في زمان واحد مسلما ومتسلما مطالبا ومطالبا؛ ولأنه متهم في الشراء من نفسه.                                                                            (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع :31/6)
قال جمع من العلماء رحمھم اللہ :لو باع الوكيل بالشراء ماله لموكله لا يصح.  (مجلة الأحكام العدلية :المادۃ:1488)
قال العلامة الكاساني رحمه اللہ  تعالی :إذا وقع البيع الباطل ،وحدث فيه تسليم شيء من أحد الطرفين وجب رده؛ لأن البيع الباطل لا يفيد الملك بالقبض، ويجب على كل من الطرفين رد ما أخذه إن كان باقيا.( بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع :305/5)
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ : (ويبرأ بردها ولو بغير علم المالك) في البزازية غصب دراهم إنسان من كيسه ثم ردها فيه بلا علمه برئ وكذا لو سلمه إليه بجهة أخرى كهبة أو إيداع أو شراء وكذا لو أطعمه فأكله.(رد المحتار:182/6)

محمد مفاز

 دارالافتاء ،جامعۃ الرشید،کراچی

20 ربیع الثانی 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد مفاز بن شیرزادہ خان

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے