021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
پاکستان میں رائج جمہوریت کا حکم
81713حکومت امارت اور سیاستدارالاسلام اور دار الحرب اور ذمی کے احکام و مسائل

سوال

پاکستان کی موجودہ جمہوریت جس میں علماء کرام بھی حصہ لے رہے ہیں، شریعت میں  اس کا کیا حکم ہے کیا یہ کفر ہے؟ بعض علماء فرماتے ہیں کہ اگر کوئی اس کو اسلام سمجھتا ہو  یا اسلام کی طرح جائز سمجھتا ہو تو اس سے آدمی کافر ہوجاتا ہے۔ کیا یہ درست ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

الفاظ اور اصطلاحات کی اہمیت اور اثر انگیزی اپنی جگہ مسلَّم ہے، لیکن احکام کا مدار صرف الفاظ اور اصطلاحات پر نہیں، بلکہ ان کے معانی اور حقائق پر ہوتا ہے۔ جمہوریت بنیادی طور پر اس طرزِ حکومت کا نام ہے جس میں امورِ مملکت سے متعلق فیصلوں اور پالیسیوں میں عوام کا عمل دخل ہو۔ اس کی شکلیں مختلف ہوسکتی ہیں، مثلا یونان کی شہری ریاستوں میں رائج بالکل سادہ جمہوریت تھی اور ایک اٹھارویں صدی کے بعد رائج ہونے والی آج کی منظم لبرل جمہوریت ہے۔

اسلام نے سیاسی حوالے سے ہمیں چند بنیادی اصول دئیے ہیں جن کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ ان میں سب سے پہلا اصول یہ ہے کہ حاکمِ حقیقی اللہ جل جلالہ کی ذات ہے، لہٰذا نظامِ حکومت میں کوئی ایسا قانون بنانا جائز نہیں جو شریعت سے متصادم ہو اور حکومت کے ایسے خلافِ شرع قوانین پر عمل جائز نہیں۔ دوسرا اصول یہ ہے کہ حاکم کا مسلمان، عالم، عادل، صحیح الحواس، سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والا اور ملک و دین کی حفاظت کرنے والا ہو۔ تیسرا اصول یہ ہے کہ اسلام حاکم کے انتخاب میں نہ تو بادشاہت اور وراثت کا قائل ہے، نہ ہی مغربی جمہوریت میں رائج ہر کس و ناکس کو ووٹ کے ذریعے یہ اختیار دینے کا قائل ہے، بلکہ اسلام حاکم کے انتخاب کی ذمہ داری اہل حل و عقد کو دیتا ہے، اہلِ حل و عقد سے مراد اجتماعی معاملات اور نظامِ حکومت کی سمجھ بوجھ رکھنے والے اصحابِ علم و دانش اور ملک و ملت کا درد رکھنے والے افراد ہیں۔ چوتھا اصول یہ ہے کہ اسلام کی نظر میں حکومت ذمہ داری کا نام ہے، حق اور کاروبار کا نام نہیں۔ پانچواں اصول یہ ہے کہ اسلام نے خود حکومت طلب کرنے سے منع کیا ہے۔  

اس تمہید کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ پاکستان میں رائج جمہوریت کفر نہیں؛ کیونکہ آئینِ پاکستان میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ حاکمیتِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہوگی اور شریعت یعنی قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنے گا۔ لیکن عملی طور پر اس میں متعدد کمزوریاں اور خرابیاں موجود ہیں جن کی اصلاح ضروری ہے، مثلا حاکم کا طریقۂ انتخاب کہ اس میں درج بالا اوصاف کا خیال نہیں رکھا جاتا، خود حکومت طلب کرنا اور عملا خلافِ شرع قوانین کا بننا اور نافذ العمل ہونا۔ ان خرابیوں اور کمزوریوں کی اصلاح ہر شخص بالخصوص مقتدر طبقہ کی ذمہ داری ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جب تک مثالی نظام وجود میں نہیں آتا تب تک اس میدان کو خالی چھوڑا جائے، بلکہ فی الحال رائج طریقے کے مطابق ملک و ملت اور دین کے لیے بہتر سے بہتر حاکم کے انتخاب کی ہر ممکن کوشش کرنا لازم ہے۔

   مزید تفصیل کے لیے تکملۃ فتح الملہم کی کتاب الامارۃ، جواہر الفقہ :۵/۴۷۱ اور احسن الفتاوی جلد ۶ص۱۴۳ ملاحظہ فرمائیں۔

حوالہ جات
۔

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

       20/ ربیع الثانی/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے