81645 | وقف کے مسائل | مسجد کے احکام و مسائل |
سوال
مسجد کی کمیٹی کارکن جو چندہ جمع کرتا ہے وہ یہ چندے کے پیسے کسی کو اپنے ذاتی ضرورت کے لیے قرض کے طور پر دے سکتا ہے، جبکہ اس وقت وہ پیسے مسجد کے فنڈ میں ویسے پڑے ہوئے تھے ، اس وقت وہ مسجد کی ضرورت سے زائد تھے ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مسجد کے چندے کے پیسے مسجد کے کمیٹی کے پاس امانت ہوتے ہیں ، اور امانت میں کسی بھی قسم کا تصرف کرنا جائز نہیں، نہ کسی کو بطور قرض دے سکتا ہے نہ خود بطور قرض لے سکتا ہے۔
حوالہ جات
قال العلامة ابن نجيم رحمه الله: أن القيم ليس له إقراض مال المسجد. قال في جامع الفصولين: ليس للمتولي إبداع مال الوقف والمسجد إلا ممن في عياله ولا إقراضه، فلو أقرضه ضمن ، وكذا المستقرض. (البحر الرائق شرح كنز الدقائق : 259/5)
وفي الفتاوى الهندية: الوديعة لا تودع ولا تعار ولا تؤاجر ولا ترهن، وإن فعل شيئا منها ضمن.. (الفتاوى الهندية : 338/4)
عبدالہادی
دارالافتاء، جامعۃ الرشید، کراچی
21ربیع الثانی 1445 ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبدالهادى بن فتح جان | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |