021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قسطوں پر گاڑی مہنگی بیچنا اور قسط کی ادائیگی میں تاخیر پر جرمانہ کا حکم
81742خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

میرے بھائی امریکہ میں رہتے ہیں اور وہ وہاں گاڑی لینا چاہتے ہیں، لیکن وہاں بغیر انٹرسٹ کے گاڑی نہیں ملتی۔ وہ جس شوروم سے گاڑی لینا چاہتے  ہیں، انہیں بتادیا ہے کہ ہم انٹرسٹ پر گاڑی نہیں لے سکتے تو وہ شوروم والے کہہ رہے ہیں کہ اگر آپ سود پر گاڑی نہیں لینا چاہتے تو آپ ہمیں گاڑی کی قیمت سے 1,000 ڈالر اضافی ادا کر دیں، جیسے اگر 25,000 ڈالر کی گاڑی ہے تو اپ 1,000 ڈالر ہمیں اضافی ادا کر دیں تو پھر اپ کو انٹرسٹ نہیں دینا پڑے گا۔ تو شوروم 25,000 کی گاڑی بغیر انٹرسٹ کے 26,000 کی دے رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ جو اضافی 1000$ دئیے جائیں گے، یہ سود ہوگا یا نہیں؟

تنقیح: سائل نے فون پر بتایا کہ سود پر گاڑی لینے کی صورت یہ ہوتی ہے کہ گاڑی کی جو قیمت مقرر ہوجاتی ہے، اس میں سے تھوڑی سی رقم اسی وقت دیدی جاتی ہے، جبکہ باقی کی قسطیں بنالی جاتی ہیں، اس کے ساتھ ہی شوروم والے اسی وقت بتاتے ہیں کہ آپ نے ہر قسط کے ساتھ اس پر ٪6 یا ٪7 فیصد یا ٪9 فیصد اضافی رقم بھی دینی ہوگی، یہ ساری بات گاڑی لیتے وقت ہی ہوتی ہے۔ ہم جس طریقے سے گاڑی لینا چاہ رہے ہیں، اس میں ہم شروع میں ڈاؤن پیمنٹ زیادہ کریں گے، ہمارے اوپر ہر قسط کے ساتھ اضافی رقم نہیں لگائی جائے گی، بلکہ شروع میں اصل قیمت زیادہ مقرر کردی جائے گی اور اس کی اقساط بنالی جائیں گی۔

بعد میں قسط لیٹ ہونے پر مذکورہ بالا دونوں صورتوں میں جرمانہ لگتا ہے۔    

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر سوال میں ذکر کردہ تفصیل درست ہے تو جس صورت کو سوال میں سود پر گاڑی لینا کہا گیا ہے وہ بھی شرعا سود کے زمرے میں نہیں آتا؛ کیونکہ جب شوروم والے خرید و فروخت کا معاملہ کرتے وقت ہی خریدار کو بتاتے ہیں کہ آپ ہر قسط کے ساتھ اتنی رقم مزید دیں گے تو یہ ساری رقم یعنی قسط اور اضافہ گاڑی کی قیمت بن جاتی ہے۔ سود (ربا القرض) یا تو کسی کو قرض دے کر اس پر مشروط یا معروف اضافہ لینے کو کہتے ہیں یا کوئی چیز بیچ کر بعد میں قیمت کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے سے اضافہ لینے کو کہتے ہیں، لیکن اگر چیز ادھار بیچتے وقت ہی اس کی مکمل اور متعین قیمت طے کی جائے تو صرف اس کے مختلف حصے بناکر ان کو مختلف نام دینے سے اس کا کوئی حصہ سود نہیں بنے گا، بلکہ اس سب کو شرعا قیمت ہی سمجھا جائے گا۔ سائل نے جو متبادل طریقہ بتایا ہے وہ بھی درست ہے، بلکہ زیادہ بے غبار اور واضح ہے۔   

البتہ مذکورہ بالا دونوں صورتوں میں قسط لیٹ ہونے پر جرمانہ کے نام سے جو رقم وصول کی جاتی ہے وہ سود ہے؛ کیونکہ یہ ادھار (قسط) پر اضافہ ہے جو شرعا جائز نہیں اور سود میں داخل ہے۔ اس لیے سب سے پہلے تو کوشش کرنی چاہیے کہ گاڑی نقد پر لی جائے۔ اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو پھر فروخت کنندہ کو اس بات پر مطمئن کر نے کی کوشش کی جائے کہ قسطوں کی ادائیگی میں تاخیر نہیں ہوگی، آپ جرمانے کی شرط نہ لگائیں۔ اگر وہ اس پر راضی نہ ہو تو چونکہ سواری انسان کی بنیادی ضروریات میں سے ہے؛ اس لیے ہر قسط کی بر وقت ادائیگی کرنے اور جرمانہ لگنے کی نوبت نہ آنے کے عزم اور نیت کے ساتھ قسطوں پر گاڑی لینے کی گنجائش ہوگی، عملاً بھی ہر قسط کی بر وقت ادائیگی لازم اور ضروری ہوگی؛ تاکہ سود دینے کے گناہ سے بچنا ممکن ہو۔

حوالہ جات
بحوث فی قضایا فقهیة معاصرة(1/15-12):
ومن هنا ینشأ السوال: هل یجوز أن یکون الثمن المؤجل أکثر من الثمن الحال؟.وقد تکلم الفقهاء فی هذه المسألة قدیما و حدیثاً؛ فذهب بعض العلماء إلی عدم جوازه، لکون الزیادة عوضاً عن الأجل، وهو الربا، أوفیه مشابهة للربا، وهذالمذهب مروی عن زین العابدین علی بن الحسین، والناصر والمنصور بالله ،والهادویة، کمانقل عنهم الشوکانی رحمه الله.
أما الأیمة الأربعة وجمهور الفقهاء والمحدثین، فقد أجازوا البیع المؤجل بأکثر من سعر النقد، بشرط أن یبت العاقدان بأنه بیع مؤجل بأجل معلوم، وبثمن متفق علیه عند العقد، فأما إذا قال البائع: أبیعك نقداً بکذا ونسیئة بکذا، وافترقا علی ذٰلك، دون أن یتفقا علی تحدید واحد من السعرین، فإن مثل هذا البیع لایجوز، ولکن إذا عین العاقدان أحد الشقین فی مجلس العقد، فالبیع جائز………….…. و لکن اختلاف الأثمان هذا إنما یجوز ذکرها عند المساومة، و أما عقد البیع فلا یصح إلا إذا اتفق الفریقان علی أجل معلوم و ثمن معلوم، فلا بد من الجزم بأحد الشقوق المذکورة فی المساومة. فلو قال البائع مثلا: إن أدیت بالثمن بعد شهر فالبضاعة
بعشرة، و إن أدیته بعد شهرین فهو بإثنی عشر، و إن أدیته بعد ثلاثة أشهر فهو بأربعة عشر، وافترقا علی ذلك بدون تعیین أحد هذه الشقوق زعما من المشتری أنه سوف یختار منها ما یلائمه فی المستقبل؛ فإن هذا البیع حرام بالإجماع و یجب علی العاقدین أن یعقداه من جدید بتعیین أحد الشقوق واضحا. …………. الخ
إنما الجائز زیادة في الثمن، لا تقاضي الفائدة:
ومما یجب التنبیه علیه هنا: أن ما ذکر من جواز هذا البیع إنما هو منصرف إلی زیادة في الثمن نفسه، أما ما یفعله بعض الناس من تحدید ثمن البضاعة علی أساس سعر النقد و ذکر القدر الزائد علی أساس أنه جزء من فوائد التأخیر في الأداء، فإنه ربا صراح. وهذا مثل ان یقول البائع: بعتك هذه البضاعة بثماني ربیات نقدا، فإن تأخرت في الأداء إلی مدة شهر فعلیك ربیتان علاوة علی الثمانیة، سواء سماها فائدة (Interest) أو لا؛ فإنه لا شك في کونه معاملة ربویة؛ لأن ثمن البضاعة إنما تقرر کونه ثمانیة، وصارت هذه الثمانیة دینا في ذمة المشتري، فما یتقاضی علیه البائع من الزیادة فإنه ربا لا غیر.

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

       22/ ربیع الثانی/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے