021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قسطوں پر خریدی گئی چیزکو آگے بیچنے کا حکم
81778خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

کسی فرد یا کمپنی سے کچھ اشیاء جو انہوں نے قسطوں پر خریدی ہوں۔ اور ان کی قسطیں باقاعدگی سے ہر ماہ ادا ہو رہی ہوں۔اور پھر اگر وہ اشیاء باہمی رضامندی سے بھروسے کی بنیاد پر مکمل ادائیگی کر کے ان سے خرید لی جائیں۔ جبکہ بقیہ اقساط خریداری کرنے والا یا فروخت کنندہ ادا کرتے رہنے کے پابند ہوں۔ تو یہ خرید و فروخت اور یہ عمل شرعی لحاظ سے کیسا ہو گا؟

وضاحت: سائل نے بتایا کہ جب ہم خریدار سے گاڑی خریدتے ہیں اور اس کے ذمہ کچھ قسطیں باقی ہوتی ہیں تو عام طور پر دو طرح کے معاملات ہوتے ہیں ایک یہ کہ بقیہ قسطیں فروخت کنندہ اپنے ذمہ لے لیتا ہے اور ہم سے مکمل قیمت لے کر گاڑی ہمارے حوالے کر دیتا ہے۔ دوسری صورت یہ کہ فروخت کنندہ بقیہ قسطوں کے برابر رقم منہا کر کے ہمیں کچھ کم قیمت پر گاڑی بیچتا ہے، اس صورت میں کمپنی کو  بقیہ قسطیں ہم ادا کرتے ہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں پہلا خریدار اگر گاڑی پر قبضہ کرنے کے بعد آپ کو فروخت کرتا ہے تو یہ جائز ہے، پھربیچنے کے بعد اگر وہ بقیہ قسطیں اپنے ذمہ لیتا ہے تو یہ بھی درست ہے، کیونکہ اصولی طور پر ان قسطوں کی ادائیگی اسی کے ذمہ واجب ہے۔لیکن اگر  دوسرا خریدار   بلاواسطہ(Direct)  بائعِ  اول ہی کو قسطیں ادا کرےتویہ حوالہ کی صورت ہے، حوالہ ایک شرعی اصطلاح ہے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ مقروض کا اپنے ذمہ واجب شدہ قرض کی ادائیگی کا کسی اور شخص کو حکم دے کر خود برئ الذمہ ہو جانا۔ اور فقہائے کرام رحمہم اللہ نے لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص اس شرط کے ساتھ کوئی چیز بیچے کہ خریدار اس چیز کی قیمت فلاں شخص کو ادا کرے گا تو یہ صورت جائز نہیں، کیونکہ یہ شرط مقتضائے عقد کے خلاف ہے اور ایسی شرط سے معاملہ ناجائز اور فاسد ہو جاتا ہے۔

البتہ اگر معاملہ کرتے وقت یہ شرط نہ لگائی جائے، بلکہ معاملہ کے وقت یہی طے کیا جائے کہ خریدار گاڑی کی مکمل قیمت فروخت کنندہ کو ہی ادا کرے گا۔ اس طرح خریدوفروخت کرنے  کے بعد فریقین باہمی رضامندی سے یہ طے کر لیں کہ طے شدہ قیمت میں سے  بقیہ قسطوں کے برابر رقم  خریدار کمپنی کو ادا کرے گا تو اس کی گنجائش ہے، کیونکہ اس صورت میں یہ شرط معاملہ سے خارج شمار ہو گی اور اس کی وجہ سے معاملہ ناجائز نہیں ہو گا، البتہ اس میں یہ شرط ہے کہ کمپنی بھی دوسرے خریدار پر بقیہ قسطوں کے حوالہ پر راضی ہو۔  

حوالہ جات
درر الحكام شرح مجلة الأحكام (ج1ص159)دار الجيل :
والبيع بشرط الحوالة كالبيع بشرط الكفالة. أعني إذا تبايع اثنان على أن يحول المشتري منهما البائع على إنسان آخر لاقتضاء الثمن منه فهذا الشرط كشرط البيع بالكفالة والبيع صحيح استحسانا؛ لأن تحويل المشتري للبائع بثمن المبيع على شخص آخر ما يضمن الثمن ويؤكد أداءه الذي هو من مقتضيات العقد. وإذا باع إنسان من آخر متاعا على أن يحول البائع على المشتري من يقبض الثمن منه فالبيع فاسد.
مثال ذلك: لو باع إنسان من آخر متاعا وشرط في البيع أن يقبض الثمن من المشتري إنسان غيره فالبيع فاسد؛ لأن حوالة البائع ليست للاستيثاق من ثمن المبيع وتأكيد مقتضى العقد بل لاستيفاء الثمن فقط بزازية " وهندية ".
فتاوى قاضي خان (ج:2ص:40)، مكتبة رشيدية،كوئٹة:
ولو باع على أن يحيل البائع رجلا بالثمن على المشتري فسد البيع قياسا واستحسانا؛ ولو باع على أن يحيل المشتري البائع على غيره بالثمن فسد قياسا وجاز استحسانا. اهـ
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 172) دار الكتب العلمية،بيروت:
ولو شرط المشتري على البائع أن يحيله بالثمن على غريم من غرمائه أو على أن يضمن الثمن لغريم من غرماء البائع فالبيع فاسد؛ لأن شرط الحوالة والضمان شرط لا يقتضيه العقد والشرط الذي لا يقتضيه العقد مفسد في الأصل إلا إذا كان فيه تقرير موجب العقد وتأكيده.
تحفة الفقهاء (2/ 51) دار الكتب العلمية، بيروت:
ولو شرط البائع في البيع أن يحيله المشتري بالثمن على غريم من غرمائه فهذا على وجهين إن أحال بجميع الثمن فالبيع فاسد لأنه يصير بائعا بشرط أن يكون الثمن على غير المشتري وهو باطل وإن باع بشرط أن يحيل نصف الثمن على فلان فهو جائزإذا كان حاضرا وقبل الحوالة............ ولو شرط المشتري في البيع على أن يحيل البائع على غريم من غرمائه بالثمن ليدفع إليه أو باع بشرط أن يضمن المشتري لغريم من غرمائه الثمن فالبيع فاسد لأن شرط الضمان والحوالة ثمة صار بمنزلة اشتراط صفة الجودة في الثمن لكونه توكيدا للثمن وتوثيقا له وشرط الضمان ههنا ليس بصفة للثمن بل هو شرط فيه منفعة العاقد والعقد لا يقتضيه فيفسد البيع.
الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي (5/ 3470) دار الفكر،سوريَّة:
فإن شرط البائع في البيع أن يحيله المشتري بالثمن على غريم من غرمائه «أي مدين له» فهذا على حالتين:
أـ إن أحال بجميع الثمن: فالبيع فاسد، لأنه يصير بائعاً بشرط أن يكون الثمن على غير المشتري، وهو باطل، لمخالفته لمقتضى العقد.
ب ـ وإن شرط عليه أن يحيل نصف الثمن على فلان، فالبيع جائز إذا كان المحال عليه حاضراً وقبل الحوالة، كما إذا باع شيئاً بألف ليرة على أن يكون نصفه على فلان وهو حاضر فقبل، جاز، أو كان المحال عليه غائباً، ثم حضر في المجلس وقبل، لأن لمجلس العقد حكم العقد.
وإن شرط المشتري في البيع شرطاً وهو «أن يحيل البائع على غريم من غرمائه بالثمن ليدفع له» أو باع البائع شيئاً بشرط «أن يضمن المشتري لغريم ـ دائن ـ من غرماء البائع الثمن» فالبيع فاسد  لأن شرط الحوالة والضمان شرط لا يقتضيه العقد، بل هو شرط فيه منفعة العاقد، والشرط الذي لا يقتضيه العقد مفسد في الأصل، إلا إذا كان فيه تقرير موجَب العقد وتأكيده، والحوالة إبراء عن الثمن، وإسقاط له، فلم يكن ملائماً للعقد.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (6/ 15) دار الكتب العلمية،بيروت:
"(أما) ركن الحوالة. فهو الإيجاب والقبول، الإيجاب من المحيل، والقبول من المحال عليه والمحال جميعا، فالإيجاب: أن يقول المحيل للطالب: أحلتك على فلان هكذا، والقبول من المحال عليه والمحال أن يقول كل واحد منهما: قبلت أو رضيت، أو نحو ذلك مما يدل على القبول والرضا، وهذا عند أصحابنا".

  محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

23/ربیع الثانی 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے