021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نکاح کے بعد بیوی کے رضاعی بہن ہونے کے دعوی کا حکم
81453رضاعت کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

محمدفاروق اور لڑکی اقرا بی بی نے کورٹ میں نکاح کرلیا ہے،نکاح کے چار پانچ دن بعد لڑکی کے والدین نے رضاعت کا دعوی کردیا کہ ہم نے اس لڑکے کو دودھ پلایا ہے اور جس لڑکی سے رضاعت کا دعوی کررہے ہیں وہ 08 اکتوبر 2005 کے زلزلے میں فوت ہوگئی ہے،جبکہ لڑکی کے والدین کے پاس اس فوت شدہ لڑکی کا کوئی ب فارم وغیرہ ثبوت نہیں ہے،جس سے اس کی عمر کا پتہ چل سکے،لڑکی والوں نے لڑکے اور لڑکے کے اہل خانہ پر اغواء کی ایف آئی آر کروائی تھی،اس میں لڑکی کی عمر تیرہ یا چودہ سال لکھوائی اور رضاعت کا کوئی ذکر نہیں کیا۔

اس دعوے میں ناکام ہونے کے بعد رضاعت کا دعوی کردیا،اپنے دعوے پر اپنے گھر ہی کے ایک مرد اور دوعورتوں کو گواہ بنالیا،پہلے یہ گواہ گواہی دینے کے لئے تیار تھے،لیکن اب وہ کہتے ہیں کہ ہم سنی سنائی باتوں پر گواہی دے رہے تھے اور گواہی سے منکر ہوگئے ہیں،ان کے علاوہ کوئی شرعی گواہ موجود نہیں ہے۔

نوٹ: لڑکے کے والدین اس دعوے کا تسلی کے ساتھ انکار کرتے ہیں کہ ہم نے اپنے بچے کو اس عورت کو دودھ نہیں پلایا،برائے مہربانی قرآن وسنت کی روشنی میں جواب دیں کہ یہ نکاح درست ہوا یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

حرمت رضاعت کے ثبوت کے لئے کم از کم دو نیک اور صالح مردوں یا انہیں صفات کی حامل دو عورتوں اور ایک مرد کی گواہی ضروری ہے،اس کے بغیر محض کسی ایک عورت کے دعوے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی،اس لئے مذکورہ صورت میں جب رضاعت پر شرعی شہادت موجود نہیں ہے تو مذکورہ نکاح جائز ہے۔

لیکن اگر رضاعت کا دعوی کرنے والے لڑکی کے والدین نیک،صالح اور سچ بولنے والے ہوں اور آپ کو اس بات کا یقین یا غالب گمان ہو کہ رضاعت کے مذکورہ دعوی سے ان کا مقصد محض غلط بیانی کرکے اس رشتے کو ختم کرنا نہیں،بلکہ دیانت کی بنیاد پر یہ دعوی کررہے ہیں تو پھرایسی صورت میں  احتیاطاً اس رشتے کو ختم کردینا بہتر ہے۔

حوالہ جات
"بدائع الصنائع " (4/ 14):
"وأما بيان ما يثبت به الرضاع أي: يظهر به فالرضاع يظهر بأحد أمرين: أحدهما الإقرار والثاني البينة.....
وأما البينة: فهي أن يشهد على الرضاع رجلان أو رجل وامرأتان ولا يقبل على الرضاع أقل من ذلك ولا شهادة النساء بانفرادهن.....
"الدر المختار " (3/ 224):
"(حجته حجة المال) وهي شهادة عدلين أو عدل وعدلتان".
قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ:"  (قوله حجته إلخ) أي دليل إثباته وهذا عند الإنكار لأنه يثبت بالإقرار مع الإصرار كما مر (قوله وهي شهادة عدلين إلخ) أي من الرجال. وأفاد أنه لا يثبت بخبر الواحد امرأة كان أو رجلا قبل العقد أو بعده، وبه صرح في الكافي والنهاية تبعا لما في رضاع الخانية:
لو شهدت به امرأة قبل النكاح فهو في سعة من تكذيبها، لكن في محرمات الخانية إن كان قبله والمخبر عدل ثقة لا يجوز النكاح، وإن بعده وهما كبيران فالأحوط التنزه وبه جزم البزازي معللا بأن الشك في الأول وقع في الجواز، وفي الثاني في البطلان والدفع أسهل من الدفع. ويوفق بحمل الأول على ما إذا لم تعلم عدالة المخبر أو على ما في المحيط من أن فيه روايتين، ومقتضاه أنه بعد العقد لا يعتبر اتفاقا، لكن نقل الزيلعي عن المغني وكراهية الهداية أن خبر الواحد مقبول في الرضاع الطارئ بأن كان تحته متغيرة فشهدت واحدة بأن أمه أو أخته أرضعتها بعد العقد. قلت: ويشير إليه ما مر من قول الخانية وهما كبيران، لكن قال في البحر بعد ذلك: إن ظاهر المتون أنه لا يعمل به مطلقا، فليكن هو المعتمد في المذهب. قلت: وهو أيضا ظاهر كلام كافي الحاكم الذي هو جمع كتب ظاهر الرواية، وفرق بينه وبين قبول خبر الواحد بنجاسة الماء أو اللحم، فراجعه من كتاب الاستحسان".
"صحيح البخاري" (1/ 29):
"عن عقبة بن الحارث، أنه تزوج ابنة لأبي إهاب بن عزيز فأتته امرأة فقالت: إني قد أرضعت عقبة والتي تزوج، فقال لها عقبة: ما أعلم أنك أرضعتني، ولا أخبرتني، فركب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بالمدينة فسأله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «كيف وقد قيل» ففارقها عقبة، ونكحت زوجا غيره".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

24/ربیع الاول1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے