021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ولی کی اجازت کےبغیرغیرکفومیں شادی کرلی توکیاحکم ہے؟
81790نکاح کا بیانولی اور کفاء ت ) برابری (کا بیان

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اور مفتیان کرام اس مسئلہ کی بارے میں کہ ایک لڑکی جسکی عمر 14 سال ہے، اس نے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا ہے، نہ تو لڑکی کے والدین اس نکاح پر رضامند ہیں اور نہ ہی یہ لوگ اس لڑکے کو اپنی لڑکی کے لیے کفو سمجھتے ہیں (لڑکے میں کفاءت کی شرائط نہیں پائی جاتیں) لڑکادیندارنہیں،پانچ وقت کی نمازتوکیا،خدشہ ہےکہ جمعہ بھی نہیں پڑھتااورساتھ ہی جھوٹا بھی ہے،عدالت میں بھی جھوٹ بولتاہےاورباہربھی اوردونمبرکاغذات بنا کر لاتا ہے ان کے ہاں بے پردگی عام ہے، جبکہ لڑکی کا خاندان باپردہ ہے،نسب میں لڑکی پٹھان خاندان سے ہے، جبکہ لڑکا پنجابی خاندان سے تو کیا یہ لڑکا کفو ہوسکتا ہے؟ مال کے اعتبار سے دونوں خاندان برابر ہیں۔ لڑکے کا کوئی پیشہ نہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مسئلہ یہ ہےکہ عاقلہ بالغہ لڑکی ولی(والدوغیرہ) کی اجازت کےبغیرغیرکفومیں نکاح کرلے(لڑکالڑکی ہم پلہ نہ ہوں )تونکاح  منعقدنہیں ہوتا۔

اورکفو کاشرعا مطلب یہ ہے کہ لڑکا  دینداری ، نسب، پیشہ  اور مال  میں لڑ کی کے ہم پلہ ہو ، اس سے کم نہ ہو،صرف خاندان الگ ہونے کی وجہ سے غیر کفو نہیں ہوتا۔

سوال میں ذکرکردہ تفصیل کےمطابق لڑکادیانت  یعنی دینداری میں لڑکی کےہم پلہ نہیں،کیونکہ نمازکی پابندی نہ کرنا،جھوٹ بولنا،دونمبرکاغذات بنوانا،اورپےپردگی،شرعایہ فسق کی علامات میں سےہیں،لہذافاسق ہونےکی وجہ سےیہ لڑکااس لڑکی کاکفونہیں ہوسکتا،اس لیے اگر لڑکی نے واقعتًا والد کی اجازت کے بغیرنکاح کیاہوتوچونکہ حنفیہ رحمہم  اللہ تعالی کےصحیح قول کے مطابق ولی کی اجازت کے بغیرغیر کفوء میں کیاہوا نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا،لہذایہ نکاح نہیں ہوا،اس  لیےفی الوقت بھی  علیحدگی کی جاسکتی ہے۔

حوالہ جات
"رد المحتار"9 / 443:
ونظم العلامة الحموي ما تعتبر فيه الكفاءة فقال : إن الكفاءة في النكاح تكون في ست لها بيت بديع قد ضبط: نسب وإسلام كذلك حرفةحرية وديانة مال فقط
"بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع "6 / 119:
( فصل ) : ومنها الدين في قول أبي حنيفةوأبي يوسف حتى لو أن امرأة من بنات الصالحين إذا زوجت نفسها من فاسق كان للأولياء حق الاعتراض عندهما ؛ لأن التفاخر بالدين أحق من التفاخر بالنسب ، والحرية والمال ، والتعيير بالفسق أشد وجوه التعيير ۔
"رد المحتار" 9 / 451:
( و ) تعتبر في العرب والعجم ( ديانة ) أي تقوى فليس فاسق كفؤا لصالحة أو فاسقة بنت صالح معلنا كان أو لا على الظاهر نهر۔۔۔
 ( قوله وتعتبر في العرب والعجم إلخ ) قال في البحر وظاهر كلامهم أن التقوى معتبرة في حق العرب والعجم ، فلا يكون العربي الفاسق كفؤا لصالحة عربية كانت أو عجمية هـ قال في النهر : وصرح بهذا في إيضاح الإصلاح على أنه المذهب ا هـ
" الھندیۃ "1/292:
 ثم المرأة إذا زوجت نفسها من غير كفء صح النكاح في ظاهر الرواية عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى ۔۔۔ وروى الحسن عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى أن النكاح لا ينعقدوبه أخذ كثير من مشايخنا رحمهم الله تعالى كذا في المحيط والمختار في زماننا للفتوى رواية الحسن وقال الشيخ الإمام شمس الأئمة السرخسي رواية الحسن أقرب إلى الاحتياط كذا في فتاوى قاضي خان في فصل شرائط النكاح ۔
"الدر المختار للحصفكي" 3 / 62:
(ويفتى) في غير الكف ء) بعدم جوازه أصلا) وهو المختار للفتوى (لفساد الزمان)

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی

25/ربیع الثانی    1445ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے