021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والد کے اخراجات کا حساب
81749نان نفقہ کے مسائلدیگر رشتہ داروں کے نفقحہ کے احکام

سوال

ہبہ دیتے وقت والد کافی حد تک معاملات سمجھتے تھے، پر ایک سال کے اندر اندر یاداشت ایسی ہو گئی کہ دس منٹ پہلے کی بات یاد نہیں رہتی۔ اب ان سے کسی بات کی تصدیق کروانا ممکن نہیں ہے۔ چار سال گزر گئے ہیں، سب سے چھوٹا بیٹا کہہ رہا ہے کہ والد کے 80 لاکھ ختم ہو گئے ہیں اور باقی بہن بھائیوں سے تقاضہ کر رہا ہے کہ ماہانہ خرچہ دیں۔ والد اللہ کے فضل و کرم سے چلتے پھرتے ہیں اور ان کی دواؤں اور ڈاکٹروں کی فیس پر ان چار سالوں میں شائد ایک لاکھ کا خرچہ بھی نہیں ہوا۔ ایرکنڈیشنر تو دور کی بات ہے، والد تو ہمیشہ سے پنکھا بھی سب سے دھیمی رفتار پر چلاتے ہیں۔ کھانے پینے کے علاوہ ان کا کوئی خرچہ نہیں ہے۔ جبکہ چھوٹے بیٹے نے اس دوران دو نئے کاروبار شروع کیئے جو مکمل طور پر ناکام ہوئے۔ جب اس سے والد کے 80 لاکھ کا حساب مانگا جاتا ہے تو صاف انکار کرتا ہے اور کہتا ہے وہ میرا اور میرے والد کا معاملہ ہے۔ کوئی حساب نہ مانگے اور نہ ہی حساب دوں گا۔ پھر بھی بیٹی اور سب سے بڑے بیٹے نے چند ماہ پہلے 90 ہزار بھیجے کہ فوری مسئلہ تو حل ہو۔ اب کہتا ہے یہ رقم بھی خرچ ہو گئی اور اس کا حساب دینے سے بھی صاف منکر ہے۔ ساتھ ہی کھلم کھلا کہتا ہے کہ آج کل ایک نئے کاروبار میں 6 لاکھ لگا رہا ہے اور اس کے پاس والد پر خرچ کرنے کے لئے پیسے نہیں ہیں۔ کیا سب سے چھوٹا بیٹا حق بجانب ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

والد نے جو رقم اپنے خرچے کے لیے علیحدہ کی ہے ،اس پر چھوٹے بیٹے کی ملکیت نہیں ہے،بلکہ وہ والد ہی کی ہے،لہذا اس کا صحیح حساب رکھنا اور درست مصرف میں خرچ کرنا اس کے ذمہ لازم ہے۔بوقت ضرورت دیگر ورثہ کے بھروسے اور اعتماد کےلیے خرچ کی تفصیل فراہم کرنا بھی ضروری ہے ،خاص کر جب مزید خرچہ ان سے طلب کیا جارہاہو،واضح رہے کہ ضرورت نہ ہونے کے باوجود والد کی رقم یا بھائیوں سے طلب کی جانے والی رقم خود پر خرچ کرنا جائز نہیں ہے۔

حوالہ جات
وفی مشکوٰۃ المصابیح(1/261):
"وعن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه. رواه البيهقي في شعب الإيمان والدارقطني في المجتبى."
وفی مرقاة المفاتيح(5/1974):
" (" ألا ") للتنبيه أيضا وكرره تنبيها على أن كلا من الجملتين حكم مستقل ينبغي أن ينبه عليه، وأن الثاني حيث يتعلق به حق العباد أحق بالإشارة إليه، والتخصيص لديه (" لا يحل مال امرئ ") أي: مسلم أو ذمي (" إلا بطيب نفس ") أي: بأمر أو رضا منه."۔۔۔

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

26/ربیع الثانی1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے