021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زوجہ،تین بیٹیوں اورتین بیٹیوں میں میراث کی تقسیم
81809میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

 میرے والد صاحب کا انتقال 2014میں ہوا اورانتقال کے وقت ان کے ورثہ یہ تھے:  بیوی،تین بیٹے اورتین بیٹیاں والدصاحب نے ترکہ میں ایک فلیٹ (3150000روپےکا) کارخانہ ،گإڑی اورگھریلوسامان چھوڑاتھا،جس وقت ان کاانتقال ہوا ان پر 28لاکھ کا قرضہ تھا،میں (جاوید)اپنے والد کا سب سے بڑا بیٹاہوں ،اپنے والد کے ساتھ کاروبارچلاتاتھا،ہمارافائبرگلاس کا کام ہے جس میں گاڑیوں کے پارٹس بنتے ہیں،والد صاحب کے انتقال کے وقت کارخانہ خسارے میں جارہاتھا،والدصاحب کی طویل علالت پر بھی خرچہ ہورہاتھاجوقرض تھا وہ کاروباری بھی تھا وردوست واحباب کا بھی،اس وقت کاروبارتقریباًبند ہوچکاتھا،والد کے انتقال کے بعد والدہ اوربہن بھائیوں کے مشورے سے اس کاروبارکو میں نے اپنے نا م کرکے اپنے دوست سے چارلاکھ کا قرض لیکر شروع کیا اورقرضہ بھی میرے ذمہ لگادیاگیا کہ اس کو ادا کرناہے، کاروبارچلنے لگا،پھر والدہ اورگھر والوں کے کہنے پرمیں نے فلیٹ فروخت کیا اورہم سب کرائے کے مکان میں شفٹ ہوگئے، فلیٹ اکیس لاکھ پچاس ہزارمیں فروخت ہوا،ان پیسوں سے مکان کرائے پر لیا،کاروبارمیں بھی پیسے لگائے اورپانچ لاکھ قرضہ واپس کیا،پھر دو بھائی اورایک بہن کی شادی کی جس پر پیسے خرچ ہوئے،والدہ شدیدبیمارہوئیں ان پرتقریباً 6لاکھ خرچ ہوئے،دو پلاٹ بھی خریدے،گھر کے تمام خرچے میں ہی کاربارسے کرتاتھا،دونوں چھوٹے بھائیوں کو میں نے اپنے ساتھ کام پر لگانا چاہالیکن چھوٹے بھائی نے صاف منع کردیا اس کو اس سے کوئی لگاؤنہیں تھا،درمیان والے بھائی نے میرے ساتھ کام کیا 2017میں اس کی شادی ہوئی اوراس کی بیوی بیمارہوئی تو اس پر لاکھوں روپے خرچ ہوئے 2019میں جب کرونا آیا تو اچانک کارخانہ بندہوگیااورکام رک گیا اورپھرسارے خرچے ادھاپر ہونے لگے میں ادھارلیکرخرچہ چلاتارہا2020میں دوبارہ کام شروع کرناچاہاتو اس بھائی نے بھی ساتھ چھوڑدیا اورچھوٹے بھائی کی طرح الگ نوکری کرلی، پھر کچھ دنوں بعد دونوں بھائی الگ کرائے کے مکان میں چلے گئے،والدہ اوربہنیں میرے ساتھ تھیں،گذشتہ سال طویل علالت کے بعدوالدہ کا انتقال ہوگیا اوردو بہنیں میری کفالت میں ہیں کارخانہ پھر سے بند ہونے لگااورمیری پریشانی زیادہ ہوئی اورمیرے اوپر پہلے سے بھی زیادہ قرضہ ہوگیا ،پھر میں نے بھائیوں کے مشورے سے اپنے دوست کےساتھ پاٹنرشب پرکاروبارچلانے کی کوشش کی کیونکہ کاروبارمیں کچھ بھی باقی نہیں تھا،اس لیے 25فیصد میرا اور75فیصد میرے پاٹنرکاحصہ ہے اورمیں اس کاروبارکو چلانے کی کوشش میں ہوں 2019سے 2023تک کاروباراورگھر کے خرچہ کے لیے میری بیوی نے اپنے تمام زیورجوکہ تقریباً15لاکھ کےتھے مجھے ادھاردیئے تھے، اس وقت مجھ پر مجموعی قرضہ 45لاکھ ہے۔آپ شرعی طورپر میری رہنمائی فرمائیں کہ

١۔  مجھے کس حساب سے وراثت کا مسئلہ حل کرناہے ؟میرے بھائی اوربہنوں نے مجھ سے وراثت کے حصہ کا کوئی تقاضہ نہیں کیا لیکن میں اس مسئلہ کو شرعی طریقے پر حل کرنا چاہتاہوں، میری کوتاہی ہے کہ میرا دھیان اس طرف پہلے نہیں گیا،میرے بھائی بہن کو وراثت کی تقسیم کیسے ہوگی ؟           

۲۔گھریلوں سامان کی تقسیم کیسے ہوگی ؟

۳۔میراکاروباراگرچہ چل نہیں رہا لیکن اس کاایک نام ہے جو میرے والد نے رکھا تھاوہ میں اپنے بیٹے کے نام کرنا چاہتاہوں اس کا شرعی طریقہ کیاہوگا ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

١١١۔ وراثت جلدی تقسیم کرناچاہیے ورنہ بعد میں مسائل پیداہوتے ہیں بہرحال اب تک ترکہ میں جو بھی منقولہ،غیرمنقولہ بشمول فیکٹری گھریلوسان،ترکہ کے پیسوں خریدے پلاٹ وغیرہ  باقی ہیں ان کی قیمت لگاکرسب سے پہلے اس سےمرحوم کے کفن دفن کے متوسط اخراجات  (بشرطیکہ کسی نے تبرعاً نہ کیے ہوں)نکالے جائیں پھرجوقرض مرحوم پر تھااورجو بعدمیں ورثہ نے باہمی مشورہ سے موروثی کاروربارکےلیےلیاوہ نکال  کراداکیاجائے اوراگراس  کے بعد کچھ مال بچے تو اس سے اگرمرحوم نے کوئی جائزوصیت کی ہوتو تہائی مال تک اسے نافذ کیاجائے،اس کے بعدبھی اگرکچھ مال بچےتووہ ورثہ میں درج ذیل طریقے سےتقسیم ہوگا۔

مذکورتینوں حقوق کی ادائیگی کے بعدباقی ماندہ کل منقولہ،غیرمنقولہ  مال میں سےمرحوم کی بیوہ کو %12.5، ہربیٹے کو%19.444 اورہربیٹی کو%9.722 دیا  جائے۔

مرحوم کی بیوی چونکہ اب فوت ہوچکی ہے لہذا ان کا مذکورہ حصہ %12.5 اب ان کے ورثہ میں تقسیم ہوگا چونکہ ان کے ورثہ سوال  میں مکمل درج نہیں ہیں،ان میں مرحومہ کے والد، والدہ، دادا، دادی کا تذکرہ نہیں ہے کہ وہ مرحومہ کی موت کے وقت حیات تھے یانہیں اس لیے اس ترکہ کی تقسیم نہیں کی گئی، اگرمرحومہ کے مذکورہ ترکہ کی تقسیم مطلوب ہو تو ان کے تمام ورثہ کی فہرست لکھ کر دوبارہ دارالافتاء سے معلوم کیاجائے۔     

۲۔اس کی قیمت لگاکراس کو مجموعی ترکہ میں شامل کرکے مذکورہ بالانسبت سے ورثہ میں تقسیم کیاجائےگا۔

۳۔آپ نے سوال میں لکھاکہ "والدہ اوربہن بھائیوں کے مشورے سے اس کاربارکو میں نے اپنے نا م کیا"نام کرنے سے مراد اگرآپ کی صرف زیرِانتظام کرنا ہوملکیت میں لینا نہ ہوتوپھر یہ میراث ہے اس کی قیمت لگاکر مجموعی ترکہ میں اس کو شامل کرکے تقسیم کیاجائے گا،اورمذکورہ بالاتقسیم اسی تقدیر پر ہےلہذا اس صورت میں تو یہ آپ اپنےبیٹے کو نہیں دے سکتے،لیکن اگرآپ اپنی طرف سے ورثہ کو ان کاحق دیدیں تو پھر اس  پورے کاروبارکوآپ  اپنے بیٹے کے نام کرسکتے ہیں اوراگر سوال میں  ذکر کردہ آپ کی مذکورہ عبارت کا مطلب یہ ہے کہ ورثہ نے بالاتفاق یہ کاروبارآپ کی ملکیت میں  دیدیاتھا اورقبضہ بھی کروادیاتھا توپھر یہ آپ کا ہوگیاتھا  آپ اسے بیٹے کے نام کرکے ان کو باقاعدہ قبضہ دیدیں توشرعا یہ اس کا ہوجائے گا،اس صورت میں یہ مرحوم کے ترکہ میں شامل نہیں ہوگا اوراس کے بعد سے اس کاروبارکےلیے لیاگیا قرضہ بھی ترکہ سے ادا نہیں کیاجائےگا۔

حوالہ جات
قال في كنز الدقائق :
"يبدأ من تركة الميّت بتجهيزه ثمّ ديونه ثمّ وصيّته ثمّ تقسم بين ورثته،وهم:ذو فرضٍ أي ذو سهمٍ مقدّرٍ."  (ص:696, المكتبة الشاملة)
قال اللہ تعالی :
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ.... وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْن [النساء/11]
وفی البحر الرائق (8/ 567)
 والعصبة أربعة أصناف: عصبة بنفسه وهو جزء الميت وأصله وجزء أبيه وجزء جده الأقرب.
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (5/ 52)
قال - رحمه الله - (ولو على الميت دين محيط بطل الصلح والقسمة)؛ لأن الورثة لا يملكون التركة في هذه الحالة؛ لأن الدين المستغرق يمنع من دخول التركة في ملك الوارث؛ لأن حاجته مقدمة على الإرث.
المعتصر من المختصر من مشكل الآثار (2/ 32)
روى عن أبي سعيد الخدري أنه قال: أصيب رجل في ثمار ابتاعها فكثر دينه فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "تصدقوا عليه" فتصدق عليه فلم يبلغ ذلك وفاء دينه فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "خذوا ما وجدتم وليس لكم إلا ذلك"
الفتاوى الهندية (5/ 366)
رجل مات وعليه قرض ذكر الناطفي نرجو أن لا يكون مؤاخذا في دار الآخرة إذا كان في نيته قضاء الدين كذا في خزانة المفتين.

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

 28/4/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے