81817 | اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائل | کرایہ داری کے فاسد معاملات کا بیان |
سوال
ایک شخص نے جانوروں کی جفتی کرانے کے لیے بیل پالا ہےاور وہ اس پر اجرت لیتا ہے۔ اگر کوئی بندہ اس کو کہے کہ اس پر اجرت لینا ناجائز ہے تو وہ کہتا ہے کہ میں اس پر خرچہ کرتا ہوں ،چارہ کھلاتا ہوں وغیرہ، میں اس کی اجرت لیتا ہوں تو اس کا یہ قول اور یہ شرط لگاناصحیح ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
جانوروں کی جفتی پر اجرت لینا جائز نہیں، احادیث مبارکہ میں اس سے ممانعت وارد ہوئی ہے۔ نیز اس کام کو مستقل کاروبار بنانا بھی جائز نہیں۔ البتہ اگر یہ کام بلا معاوضہ کیا جائے اور اس احسان کی وجہ سے مہمانداری اور ہدیہ دیا جائےتو اس کی گنجائش ہے۔
حوالہ جات
روى الإمام البخاري رحمه الله عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما قال:"نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن عسب الفحل".(صحيح البخاري: 2/ 797)
روى الإمام الترمذي رحمه الله عن أنس بن مالك، أن رجلا من بنی كلاب سأل النبي صلى الله عليه وسلم عن عسب الفحل، فنهاه، فقال: يا رسول الله، إنا نطرق الفحل فنكرم، فرخص له في الكرامة.(سنن الترمذي:3/ 565)
قال العلامة ابن نجيم رحمه الله:قال رحمه الله :لا أجرة عسب التيس، يعني لا يجوز أخذ أجرة عسب التيس؛ لقوله عليه الصلاة والسلام :"إن من السحت عسب التيس ومهر البغي"؛ ولأنه عمل لا يقدر عليه، وهو الإحبال، فلا يجوز أخذ الأجرة عليه، ولا أخذ المال بمقابلة الماء ،وهو نجس لا قيمة له فلايجوز. والمراد هنا استئجار التيس؛ لينزو على الغنم ويحبلها بأجر. أما لو فعل ذلك من غير أجر لا بأس به؛ لأن به يبقى النسل.(البحر الرائق شرح كنز الدقائق: 8/ 21)
عبدالہادی
دارالافتاء، جامعۃ الرشید، کراچی
29ربیع الثانی 1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبدالهادى بن فتح جان | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |