021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تاخیر اور دیگر وجوہات کی بنا پر ملازم کی اجرت کاٹنا (تعزیر مالی/مالی جرمانہ)
81824حدود و تعزیرات کا بیانتعزیر مالی کے احکام

سوال

۱) اسکول میں نئے استاد جن کو دو تین ماہ ہوئے ہوں، ان کو جون جولائی کی  تنخواہیں نہیں دی جاتیں۔ ان مہینوں میں  اسکول کی سرکاری چھٹی ہوتی ہے،حالانکہ ان مہینوں میں طلباء سے فیس لی جاتی ہے۔ کیا ان مہینوں میں مندرجہ بالا استاد کو تنخواہ نہ دینا شرعاً درست ہے ؟

اور اگر شروع میں استاد کو بتادیا جائے یا معاہدہ کرلیا جائے کہ جون جولائی کی تنخواہ ان اساتذہ کو نہیں ملتی جن کو ایک سال یا چھ ماہ نہ گزرے ہوں، اس طرح معاہدہ کر کے مذکورہ مہینوں کی تنخواہ نہ دینا جائز ہے؟

۲) اس کے علاوہ تین دن تاخیر سے آنے پر استاد کی ایک دن کی تنخواہ کاٹ لینا شرعاً درست ہے؟ جب کہ وہ تاخیر صرف 6,5 منٹ کی ہوپھر بھی کٹوتی کر لی جاتی ہے۔ اور اگر تین دن تاخیر پر تنخواہ کٹوتی کی کوئی مصلحت ہو،تو کیا پھر کٹوتی شرعاً درست ہے؟

۳) اسکول میں استاد بچوں کےجو کام چیک کرتے ہیں تو اس چیکنگ میں اگر استاد صحیح چیک نہ کرسکا تو اس غلطی پر تنخواہ کاٹتے ہیں، اسکول کی طرف سے تنخواہ میں یہ کٹوتی جائز ہے؟

مزید  یہ کہ مندرجہ بالا معاملات اگر ناجائز ہیں تو جانبین کی رضامندی سے یہ جائز ہوجائیں گے یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ اسکول میں پڑھانے والا استاد ’اجیر خاص ‘ہوتا ہے۔ اجیر خاص کا مطلب ہے ایسا ملازم جو طے شدہ وقت میں ملازمت کی جگہ موجود رہے خواہ اس سے کام لیا جائے یا نہیں۔ اس تمہید کے بعد سوالات کے جوابات یہ ہیں:

۱) آج کل عرفاً اساتذہ کو تعطیلات کے مہینوں کی تنخواہ دی جاتی ہے لہٰذا اگر کوئی معاہدہ نہ ہوا ہو تو عرفاً نیا استاد بھی ان ایام کی اجرت کا مستحق ہوگا البتہ اگر ابتداء میں معاہدہ ہوجائے کہ چھٹیوں کے مہینوں کی تنخواہ کے لیے 6 ماہ یا اس سے زائد مدت کی ملازمت ضروری ہے تو استاد کو چھٹیوں کے مہینوں کی اجرت نہ دینا جائز ہے۔

۲) تاخیر کی وجہ سے صرف اتنی اجرت کی کٹوتی جائز ہے جتنی تاخیر ہوئی ہو، پورے دن کی تنخواہ کی کٹوتی جائز نہیں اگرچہ کسی مصلحت کی وجہ سے ہو۔لیکن اگر کٹوتی کرلی ہے تو وہ واپس کرنا ضروری ہے، ان پیسوں کو استعمال کرنا جائز نہیں، وہ ان اساتذہ کی ملکیت ہیں۔

مزید یہ کہ عرفاً 5سے10منٹ کی تاخیر کی گنجائش دی جاتی ہے، لہٰذا اتنی تاخیر کی گنجائش دینی چاہیے۔

۳) مالی جرمانہ وصول کرنا جائز نہیں ہے اگرچہ وہ کام ٹھیک چیک نہ کرنے کی وجہ سے لیا جائے۔ البتہ ملازم کی غلطی کی وجہ سے اگر ادارے کو کوئی حقیقی نقصان پہنچے تو ادارہ  نقصان پورا کرنے کے لیے رقم وصول کرسکتا ہے اس کے علاوہ جرمانہ لگانا درست نہیں۔

مندرجہ بالا معاملات جانبین کی رضامندی کے باوجود بھی جائز نہیں ہونگے، البتہ وقت کی پابندی کروانے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے کہ تنخواہ کچھ کم کر کے بقیہ رقم بونس کے طور پر طے کرلی جائے اوریہ اصول بنا لیا جائے کہ جو ایک ماہ میں ۳ دن دس منٹ سے زیادہ تاخیر کرے گا اس کو بونس نہیں دیا جائے گا۔

حوالہ جات
حاشية ابن عابدين (4/ 61)
قوله (لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز اه. ومثله في المعراج وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف
قال في الشرنبلالية ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه اه
ومثله في شرح الوهبانية عن ابن وهبان. قوله (وفيه الخ) أي في البحر حيث قال وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي...... والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال.
مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (2/ 371)
وفي البحر ولا يكون التعزير بأخذ المال من الجاني في المذهب.

عمر فاروق

دار الافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

۲۸/ربیع الثانی/۱۴۴۵ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عمرفاروق بن فرقان احمد آفاق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے