021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایس آر اے (SRA) ایپ میں انویسٹمنٹ کا حکم
81825سود اور جوے کے مسائلسود اورجوا کے متفرق احکام

سوال

گروپ آن لائن ورک میں انویسٹ کرنا کیسا ہے؟ ایس آر اے (SRA) کو لاگ اِن کرنے پر سات ڈالر ملتے ہیں جو اکاؤنٹ میں نظر آتے ہیں، لیکن ہم نکال نہیں سکتے۔ ایس آر اے میں کم سے کم سو ڈالر اور زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ ڈالر انوسیٹ کرنے ہوتے ہیں۔ جب ہم سو ڈالر انویسٹ کرتے ہیں تو پھر یہ اس وقت تک ہمیں نہیں ملتے جب تک ہم کام کر رہے ہوں، کام چھوڑنا چاہیں تو پھر ملتے ہیں، اگر آپ یہ رقم نکال لیں تو پھر کام نہیں کرسکیں گے۔ کام یہ ہوتا ہے کہ رقم انویسٹ کرنے کے بعد مختلف چیزوں کی تصاویر اور اشتہارات کی شکل میں کمپنی کے آرڈر ملتے ہیں جو ہم نے سبمٹ (Submit) کرنے ہوتے ہیں یعنی ان پر کلک کرنا ہوتا ہے، اس پر جو نفع (Profit) آتا ہے وہ ہمارے قبضے میں ہوتا ہے، ہم جب چاہیں اسے وصول (Withdraw) کر سکتے ہیں۔ ایس آر اے میں ہمارا جتنا بیلنس ہوگا، ہمیں نفع بھی اسی کے حساب سے ملے گا۔ دن میں سات آرڈرز سبمٹ کرنے ہوتے ہیں، سو ڈالر انویسٹ کرنے پر دو ڈالر ملتے ہیں اور دو سو ڈالر انویسٹ کرنے پر چار ڈالر ملتے ہیں، اسی طرح جتنا زیادہ بلینس ہوگا اسی کے مطابق نفع ملے گا۔ میں نے دو سو ڈالر انویسٹ کیے تھے جس پر دو سو سے زیادہ ڈالر کما چکا ہوں، وہ میرے پاس ہیں۔ اب ایک ہفتہ سے ایپ بند ہے، کام نہیں کر رہا، میرے جو دو سو روپے تھے وہ چونکہ ایپ میں تھے، اس لیے اب میں وہ نہیں نکال سکتا۔ اب جو رقم مجھے ملی ہے یہ میرے لیے حلال ہیں یا حرام؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق ایس آر اے (SRA) ایپ میں انویسٹمنٹ کرنا جائز نہیں، جس کی وجوہات درجِ ذیل ہیں:

  1. ایپ کے مالکان ایپ استعمال کرنے والے کو جو آرڈر دیتے ہیں اور وہ اس کو سبمٹ کرتا ہے یہ شرعی اعتبار سے اجارہ (خدمات یعنی سروسز اجرت کے بدلے میں فراہم کرنا) کا معاملہ بنتا ہے اور شرعا اجارہ صحیح ہونے کی ایک شرط یہ ہے کہ کام کرنے والے سے جو کام لیا جا رہا ہو وہ ایسا ہو جو شرعاً، عرفاً اور عقلاً جائز، مقصود اور فائدہ مند ہو۔ صورتِ مسئولہ میں محض آرڈر سبمٹ کرنا یعنی تصویر پر کلک کرنا بذاتِ خود مقصود یا فائدہ مند کام نہیں ہے، بلکہ بسا اوقات اس کو دھوکہ دہی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اس اشتہار کو زیادہ لوگوں نے پسند کیا ہے، اس لیے یہ کام اجارہ کا معقود علیہ نہیں بن سکتا، یہ کام کر کے اجرت لینا شرعا جائز نہیں۔
  2. ایپ والے انویسٹمنٹ کے نام پر جو رقم لیتے ہیں وہ جب واپس مانگنے پر واپس ملتے ہیں تو اس کی حیثیت قرض کی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ایپ والے اجارہ کا عقد کرنے کے لیے قرض کی شرط لگاتے ہیں کہ ہمیں اتنا قرض دوگے تو تمہیں کام کرنے کا موقع دیا جائے گا، یہ صفقہ فی صفقہ (ایک معاملے کو دوسرے معاملے کے ساتھ مشرط کرنے) ہونے کی وجہ سے جائز نہیں۔
  3. اس میں سود کا پہلو بھی پایا جا رہا ہے۔ سود اس لیے کہ ایپ والوں کے پاس لوگوں کی رقم قرض ہوتی ہے اور ان کو نفع کے نام پر جو رقم ملتی ہے وہ قرض کی وجہ سے ملتی ہے، چنانچہ جتنا قرض زیادہ ہوتا ہے اتنا ہی اس پر نفع زیادہ ملتا ہے، اور قرض پر مشروط نفع لینا سود ہے۔
  4.  اس میں قمار یعنی جوے کا عنصر بھی موجود ہے؛ کیونکہ پیسے دینے والا شخص اپنے پیسے داؤ پر لگاتا ہے، ممکن ہے وہ اتنے آرڈرز سبمٹ کرے کہ اپنی لگائی ہوئی رقم سے زیادہ حاصل کرے اور ممکن ہے جتنی رقم لگائی ہے وہ بھی واپس نہ ملے اور ڈوب جائے، جیساکہ صورتِ مسئولہ میں ایپ بند ہونے کی وجہ سے آخر میں آنے والے بہت سارے لوگوں کی رقم ڈوب گئی ہوگی اور شروع سے استعمال کرنے والوں کو اپنی رقم سے زیادہ رقم ملی ہوگی۔

اب آپ کے لیے حکم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ و استغفار کریں اور آئندہ اس قسم کے کام کرنے سے مکمل اجتناب کا عزم کریں۔ آپ کو جو رقم ملی ہے، اس میں سے آپ اتنی رقم لے سکتے ہیں جتنی آپ نے ایپ والوں کو دی تھی؛ کیونکہ وہ آپ کا قرض تھا۔ باقی اضافی رقم جتنی بھی ملی ہے، اس سب کو ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کرنا لازم اور ضروری ہے، اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں۔

حوالہ جات
السنن الكبرى للبيهقي (5/ 573):
 عن فضالة بن عبيد صاحب النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: " كل قرض جر منفعة فهو وجه من وجوه الربا " .
رد المحتار (6/ 403):
قوله ( لأنه يصير قمارا ) لأن القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه ويجوز أن يستفيد مال صاحبه، وهو حرام بالنص.
بدائع الصنائع (4/ 192):
 ومنها أن تكون المنفعة مقصودة يعتاد استيفاؤها بعقد الإجارة ويجري بها التعامل بين الناس، لأنه عقد شرع بخلاف القياس لحاجة الناس، ولا حاجة فيما لا تعامل فيه للناس، فلا يجوز استئجار الأشجار لتجفيف الثياب عليها والاستظلال بها؛ لأن هذه منفعة غير مقصودة من الشجر.
درر الحكام شرح مجلة الأحكام (1/ 372):
توضيح القيود: يجب أن تكون المنفعة التي يعقد عليها في الإجارة مقصودة في الشرع ونظر العقلاء. فلو استأجر إنسان حصانا ليربطه أمام داره أو ليجنبه أو استأجر ثيابا ليضعها في بيته؛ ليظن الناس أن له حصانا أو ثيابا نفيسة ليراها الناس ويظهر بها بمظهر الأغنياء فالإجارة فاسدة، ولا تجب الأجرة فيها؛ لأنها منفعة غير مقصودة من العين في الشرع ونظر العقلاء. ولا يكفي لصحة الإجارة أن تكون المنفعة مقصودة للمستأجر، بل لا بد أن يكون فيها منفعة مقصودة في الشرع ونظر العقلاء. والأجرة وإن كانت تجب باستعمال المأجور في الإجارة الفاسدة إلا أنه لا بد لذلك من أن تكون تلك الإجارة معقودة على ما فيه منفعة مقصودة.

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

        29/ربیع الثانی/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے