021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والد کا اپنی بیٹی کو بنا کر دیے گئے زیورات میں تقسیم وراثت کا حکم
80745میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

عاشق حسین نے زندگی میں ہی اپنی اکلوتی بیٹی کنیز فاطمہ کو زیورات بنا کر دیے،  اور وقتا فوقتا پیسے بھی دیتا رہا جو کہ ایک خطیر رقم بن چکی ہے۔ اس کا کیا حکم ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ ہر شخص اپنی زندگی میں اپنے اموال کا خود مالک ہوتا ہے، وہ ہر جائز تصرف اس میں کرسکتا ہے، کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ اس کو اس کی اپنی ملک میں تصرف  کرنے سے منع کرے ، نیز والد ین کی زندگی میں اولاد وغیرہ کا ان کی جائیداد / اموال میں شرعی حق و حصہ نہیں ہوتا، اور نہ ہی کسی کو مطالبہ کا حق حاصل ہوتاہے، تاہم اگر والدین اپنی زندگی میں اپنا مال خوشی و رضا سے اولاد کو دینا چاہیں تو کرسکتے ہیں، اور زندگی میں اولاد کو جو مال دیاجائے وہ ہبہ (گفٹ) کہلاتا ہے۔

لہٰذا صورتِ  مسئولہ میں عاشق حسین نے اپنی بیٹی کو جو زیورات اور نقد رقم دی تھی تو اس کی بیٹی ہی کی ملکیت ہے، اس میں وراثت جاری نہیں ہوگی۔

حوالہ جات
خلاصة الفتاوى (4/400):
ولو وهب جميع ماله لابنه جاز في القضاء
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 696):
"وفي الخانية لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم"

احمد الر حمٰن

دار الافتاء، جامعۃ الرشید کراچی

2/محرم الحرام/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احمد الرحمن بن محمد مستمر خان

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے