021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
 بھائی نےدو بھائیوں کی بیویوں   کےنام سےدکان خریدی ،لیکن قبضہ نہیں دیاتودکان کس کی ہوگی
81950ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

میرے والد نے ایک دکان1980 میں اپنے چھوٹے بھائی عبدالمجید کی اہلیہ کے نام لی تھی لیکن اس کا قبضہ ان کو نہیں دیا تھا کیونکہ وہ دوسری دکان میں کاروبار کر رہے تھے، اس کے کچھ عرصہ بعد پاس کی ایک اوردکان میرے والد نے دوسر سے چھوٹے بھائی محمد صابر کی اہلیہ کے نا م خریدی،اس کا قبضہ بھی ان کو نہیں دیا تھا کیونکہ بھائی سرکاری نوکری کرتے تھے،اسی  سال کےدوران ا س دکان کی مالیت سے کسی قدر زیادہ رقم ان کو کراچی کے مکان کی تعمیر کےلیے دی ۔

1992 میں عبدالمجید بھائی کا انتقال ہو گیا تو ان کے بیٹوں کومحمد صابر کے اہلیہ کے نام جو دکان تھی اس کا قبضہ دے دیا تقریبا15 سال سے زیادہ انہوں نے اس دکان میں کا روبار کیا، اس عرصہ میں میرے والد اور عبدالمجید بھائی کی فیملی محمد صابر بھائی سے اس بات پر اصرار کرتے رہے کہ آپ اس دکان کے بدلے رقم لے چکے ہیں،لیکن انہوں نے نام ٹرانسفر نہیں کروایا، ایک مرتبہ میں محمد اقبال اور میرے بھائی  محمد ز کی عبدالمجید بھائی کی فیملی کے ساتھ کراچی ان کے گھر پر گئے اور اُن سے بات چیت کی، محمد صابر بھائی نے کہا کہ  اس دکان کی رقم خوداپنی طرف سے دی  ہے۔اس پر میں نے کہا کہ آپ حلف اٹھا کر یہ بات کہہ دیں ہم آپ کو چابی ابھی دے دیتے ہیں اور آپ حلف نہیں اٹھا ئیں گے تو پھر میں حلف اٹھاتا ہوں، اس پر ان کے بچوں نے اُن کے ابو کو کہا کہ اگر آپ نے پیسے دیئے ہیں تو آپ حلف اٹھالیں،اس پر وہ اپنے بچوں پر ناراض ہوئے اور کہا "نہ میں حلف اٹھاوں گا اور نہ  آپ کے حلف کو مانوں گا۔جبکہ یہ رقم میں نے خود اپنے ہاتھ سےوالد صاحب کے پیسوں سے ادا کی ہے اور اس کا ثبوت کےطورپراسٹامپ پیپرموجود ہے۔

اس صورت میں کیا حکم ہوگا؟ محمد صابر کی اہلیہ  اس دکان کی مالک ہے یا نہیں؟ اورآیا عبد المجیدکی اہلیہ کو جو دکان ہم نے (میرے والد صاحب نے) دی تھی پھر وہ اس میں پندرہ 15 سال تک کاروبار کرتے رہے، میرے والد نے انکو مکمل قبضہ اور تصرف دے دیا تھا اب 15 سال کے بعد عبد المجید کے بچوں نے اس دکان کی چابی ہمارے حوالے کر دی ہے کہ یہ دکان تو محمد صابر کی اہلیہ کے نام ہے، کیا اس دکان کے مالک عبد المجید کی اہلیہ ہو گی یا نہیں؟  جو چابی اور د کان ہمیں واپس کی گئی ہے کیا ہمیں اس کے بدلے دکان یار قم دینی ہوگی؟ اور کس کو دینی ہوگی؟

یہاں یہ با ت قابل وضاحت  ہے کہ عبدالمجید بھائی کی ایک بیٹی محمد صابر کے بیٹے کی اہلیہ ہے،اور دوسری بیٹی میرے چھوٹے بھائی کی  اہلیہ ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں جب  آپ کےوالدنےاپنی ذاتی رقم سےبھائی عبدالمجیداوربھائی صابرکی اہلیہ کےنام سے دکان لی  تھی،اس وقت چونکہ باقاعدہ قبضہ نہیں دیاتھا،اس لیےوہ دکانیں بھابیوں  کی ذاتی نہیں ہوئی،بلکہ ملکیت آپ کےوالدصاحب ہی کی شمارہوگی،کیونکہ شرعاہبہ کےمکمل ہونےکےلیےقبضہ دیناضروری ہے۔

اس کےبعدجب آپ کےوالدصاحب نے(بھائی صابرکی اہلیہ کےنام سےخریدی گئی دکان)بھائی عبدالمجیدکی اہلیہ اوران کےبیٹوں کوقبضہ میں دی ،اس وقت شرعا ہبہ مکمل ہواہے،کیونکہ قبضہ پایاگیا،لہذایہ دکان عبدالمجید کی اہلیہ اوران کےبیٹوں کی ذاتی شمارہوگی،ایسی صورت میں اس دکان میں پھرکسی کاحصہ نہیں ہوگا۔

رہامسئلہ کہ دکان کی رقم کس نےدی ہے،یہ آپ بھائیوں کےآپس کامعاملہ ہے،موجودہ صورت میں شرعااس سےحکم پرکوئی فرق  نہیں پڑےگا،کیونکہ سوال کےشروع میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ یہ دکانیں  آپ کےوالدنےقبضہ میں نہیں دی تھیں ،لہذایہ بھابھیوں کی ملکیت  نہیں ،بلکہ  آپ کےوالدہی کی ملکیت تھی۔

سوال کی  وضاحت کےمطابق چونکہ آپ کےوالدنےعبدالمجید کی اہلیہ اوران کےبیٹوں  کوودکان قبضہ میں دی ہے،لہذا یہ دکان شرعا ان کی ملکیت ہے ۔

واضح رہےکہ  ہبہ یابیع وغیرہ سےملکیت ثابت ہونےکےلیےشرعاجائیدادکوسرکاری کاغذات میں نام کرواناضروری نہیں،اورصرف کاغذات میں نام کروانےسےشرعاہبہ تام نہیں ہوتا،لہذا عبدالمجید بھائی کےبیٹوں کووالدنےجودکان دی ہے،اگروہ محض اس بنیادپروہ دکان واپس کررہےہیں کہ یہ دکان ان کےنام پرنہیں ،اس وجہ سےیہ شرعا ان کی ملک نہیں،تویہ ان کی غلط فہمی ہے،اس غلط فہمی کی بنیادپران سےدکان واپس لینادرست نہیں،ان کو مسئلہ سمجھاکریہ کوشش کرنی چاہیےکہ صابربھائی دکان ان کےنام کروادے۔

حوالہ جات
"شرح المجلۃ" 1 /  473 :ویملک الموھوب لہ الموھوب بالقبض فالقبض شرط لثبوت الملک ۔               
"شرح المجلۃ" 1 /462 :
وتتم بالقبض الکامل لأنہامن التبرعات والتبرع لایتم الابالقبض الکامل ۔
" البحر الرائق"  15 / 292:
وركنها هو الايجاب والقبول، وحكمها ثبوت الملك للموهوب له غير لازم۔
"المبسوط للسرخسي"12 / 83: ثم الملك لا يثبت في الهبة بالعقد قبل القبض عندنا۔۔۔۔وحجتنا في ذلك ما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم: "لا تجوز الهبة إلا مقبوضة" معناه لا يثبت الحكم وهو الملك إذ الجواز ثابت قبل القبض بالاتفاق والصحابة رضوان الله عليهم اتفقوا على هذا فقد ذكر أقاويلهم في الكتاب ولأن هذا عقد تبرع فلا يثبت الملك فيه بمجرد القبول كالوصية۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی

10/جمادی الاولی     1445ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے