021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
گھر سے نکالی گئی عورت کا خاوندسے طلاق لینے کاحکم
81956طلاق کے احکامصریح طلاق کابیان

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

    مجھے میرے شوہرنے گھر سے ایک سال پہلے ماریپٹ کر اوراپنے منہ سے طلاق دیکرنکال دیاتھا،مجھ سے میری دو بیٹیاں چھین لی تھی ،ایک میری بیٹی کی شادی کردی ،دوسری بیٹی کے ساتھ بہت ظلم کرتاتھا مطلب غلط حرکتیں کرتاتھا،میں وہ سب بیان نہیں کرسکتی ہ،شرم آتی ہے،کہتاتھا کہ میں اس بیٹی کو بیچ دوں گااس کو وٹاسٹاکرکے اپنی شادی کروں گا ،بہت کچھ کہتاتھا،میں اسے کہتی تھی کہ اگرمیری بیٹی کے ساتھ کچھ بھی غلط کیا تو میں تجھے نہیں چھوڑوں گی اسی دھمکی کی وجہ سے میری بیٹی کو بیچا نہیں باقی سب غلط حرکتیں کرتاتھا،وہ بہت گندہ آدمی ہے جوا،شراب اورسب نچے کرتاہے جب میں اپنے بچوں کے ساتھ اس کے گھر تھی تو وہ گھر کا خرچہ کچھ بھی نہیں دیتاتھا،میں کام کاج کرکے اپنے بچوں کو پالتی تھی جیسے اب میں پال رہی ہوں ۔

اس کے بعد میری بیٹی بڑی مشکل سے مجھ تک پہنچی میں نے اس کی شادی کرادی ،اب وہ مجھے میری بیٹی اورداماد کو کال کرکے دھمکیاں دیتاہے کہ میں ماردوں گا سب کو ماردوں گا وہ ریکارڈنگ ہمارے پاس موجودہے،گزارش ہے کہ میں بہت غریب ہوں میرے پاس چاربچے ہیں مین کام کرکے اپنے بچوں کو پالتی ہوں قانون کے مطابق میں اب بھی اس کے نکاح میں ہوں گزارش ہے کہ

میں اس سے طلاق لینا چاہتی ہوں برائے مہربانی فتوی جاری کرکے میری مددکریں،مہربانی ہوگی ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

طلاق کےلیے لکھی ہوئی ہونااورملکی قانون کے مطابق ہونا شرعاً ضروری نہیں ہے،زبانی طلاق دینے سے بھی شرعاً طلاق واقع ہوجاتی ہے،لہذا اگر آپ کے شوہر نے آپ کوگھر سے نکالتے وقت زبانی طلاق دیدی تھی جیسے کہ آپ نے لکھا تواگر تین دی تھی یا ایک دودی تھی اورپھر عدت میں رجوع نہیں کیاتھاتو وہ سب ہوگئیں ہیں اوراب آپ آزاد ہیں،مزید طلاق لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے،ہاں قانونی پیچیدگیوں سے بچنے کےلیے آپ کورٹ سے فسخِ نکاح کی ڈگری حاصل کرسکتی ہیں جوبڑی آسانی سےآج کل مل جاتی ہے کسی وکیل سے رابطہ کرلیں۔

اوراگرانہوں نےآپ کوزبانی ایک،دو طلاقیں دی تھی اورپھر عدت میں رجوع بھی کرلیاتھاتوپھر آپ اب تک ان کی بیوی ہیں اگرآپ دونوں کا واقعةً نبھاؤ نہیں ہوسکتاہے اورآپ طلاق لینا ہی چاہتی ہے توپھر آپ خلع کےلیے اپنا دعوی قریبی عدالت میں پیش کریں، اورعدالت میں گواہوں سے اپنادعوی ثابت کریں پھر عدالت فریقین کے بیان سن کر اگر اس نتیجے پر پہنچے کہ فی الواقع آپ مظلوم ہیں، اوآپ کےساتھ شوہر یقیناًظالمانہ برتاؤ کررہا ہے،اورنفقہ نہیں دے رہاہےاورگھر سے نکالاہواہےتوپھر عدالت آپ جیسی مظلوم عورت کا اس کے شوہر سے نفقہ نہ دینے کی وجہ سےنکاح فسخ کرسکتی ہے؛اوراس کے بعد آپ آزاد ہوں گی، لہٰذا آپ اپنا معاملہ عدالت کے روبرو پیش کریں اور اس کے مطابق عمل کریں۔ (الحیلۃ الناجزۃبتصرف)

واضح رہے کہ موجودہ زمانے میں عدالتوں سے جاری ہونے والی خلع کی اکثر ڈگریاں غیر شرعی بینادوں پر ہونے کی وجہ سے شرعاً غیر موثر ہوتی ہیں اوران سے نکاح ختم نہیں ہوتا،لہذا جب آپ  ضرورت کے وقت عدالت سے خلع لیں تو کسی شرعی بنیاد مثلاًنفقہ نہ ملنے کی وجہ سے دعوی دائرکریں اوراپنے اس دعوی کو شرعی گواہوں (دو دیانتدارمرد یا ایک مرد اوردو عورتوں کی گواہی سے ثابت بھی کریں)ورنہ غیر شرعی بنیاداوربغیرشرعی گواہوں کے ایک فریق کے بیان حلفی پر لیاجانے والا عدالتی فیصلہ شرعاًغیرمعتبرہوگا اوراس سے نکاح ختم نہیں ہوگا۔

حوالہ جات
فتح القدير للكمال ابن الهمام (4/ 209)
إذا تلفظ بطلاقها غير ناو تطلق للصراحة والعرف هو الموجب لثبوت الصراحة، وعن هذا قالوا: لو نوى غير الطلاق لا يصدق في القضاء بل فيما بينه وبين الله تعالى.
المبسوط للسرخسي (6/ 122)
 لأن الوقوع بلفظه لا بقصده، وهو ما تلفظ.
وفی البحرالرائق  کتاب الطلاق( ج ۳ ص ۲۵۳)
واما سبعہ فالحاجۃ الی الخلاص عند تبائن الا خلا ق و عروض البغضاء المو جبۃ عدم اقامۃ حدود اﷲ الخ ویکون واجبااذا فات الا مساک بالمعروف .
وفی الشامیۃ (۴۴۱/۳):
إذا وقع بين الزوجين اختلاف أن يجتمع أهلهما ليصلحوا بينهما فإن لم يصطلحا جاز الطلاق والخلع اهـ ط وهذا هو الحكم المذكور في الآية وقد أوضح الكلام عليه في الفتح آخر الباب .
وفی الهداية  (ج 1 / ص 254)
وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض لقوله تعالی:{فأمسكوهن بمعروف } [ البقرة : 231 ] من غير فصل ولا بد من قيام العدة لأن الرجعة استدامة الملك
وفی الفتاوی  الہندیہ
"تجب على الرجل نفقة إمرأته المسلمة و الذمية و الفقيرة و الغنية دخل بها أو لم يدخل ..." الخ ( الباب السابع عشر في النفقات، ١/ ٥٤٤، ط: رشيدية)
وفی الفتاوی  الہندیہ
"تجب على الرجل نفقة إمرأته المسلمة و الذمية و الفقيرة و الغنية دخل بها أو لم يدخل ..." الخ ( الباب السابع عشر في النفقات، ١/ ٥٤٤، ط: رشيدية)
وفيه أيضاً:
"الكسوة واجبة عليه بالمعروف بقدر ما يصلح لها عادةً صيفاً و شتاء، كذا في التتارخانية ناقلاً عن الينابيع". (مطلب في الكسوة، ١/ ٥٥٥)
الموسوعة الفقهية الكويتية (29/ 287)
- إذا عجز الزوج عما وجب عليه من النفقة، وطلبت الزوجة التفريق بينها وبين زوجها، فعند المالكية والشافعية والحنابلة يفرق بينهما، وذهب الحنفية إلى أنه لا يفرق بينهما بذلك بل تستدين عليه، ويؤمر بالأداء من تجب عليه نفقتها لولا الزوج.

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

 دارالافتاء جامعۃ الرشید

  13/5/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے