021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نابالغ کاروبارمیں شریک ہواوردکان سے کوئی بلاعوض چیز اٹھاکر کھالے تو اس کا کیا حکم ہوگا؟
81988زکوة کابیانسونا،چاندی اور زیورات میں زکوة کے احکام

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

میری دکان ہے اوراس میں میرے ساتھ ایک اوربندہ شریک تھا ،اب اس کا انتقال ہوگیاہے اوراس کے بچے نابالغ ہیں مجھے پوچھنایہ ہے کہ میں دکان پر ہوتا ہوں توکبھی کوئی آکردکان سے کوئی چیز اٹھاکر کھالیتاہےاورپیسے نہیں دیتاکیا اس کی گنجائش ہے بالکل جائزنہیں ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ کسی کی دکان سے اس کی اجازت کے بغیر کوئی کوئی اٹھاکرکھانا جائزنہیں ہے ،ہاں مقصد خریدنا ہو اورچیک کرنے کے لیےاتنی معمولی چیز لیکرکھالی جس کی عرف میں عام طورپر اجازت سمجھی جاتی ہےتو اس کی اجازت ہوگی۔

  جہاں تک دکاندار کےلیے حکم کاتعلق  ہےتو  پہلے  یہ سمجیں کہ شریک کے فوت ہونے پر مذکورہ شرکت تو ختم ہوگئی تھی تاہم اگردکاندارنے ورثہ کی اجازت سے نئی شرکت شروع کی ہو توپھرمسئولہ مسئلے کاحکم یہ ہےکہ مال دکاندارکے پاس امانت ہےلہذا اس کی حفاظت  دکاندارکی ذمہ داری میں آتاہے،لہذا خریداراگر معمولی چیز اٹھاکر کھاتاہے یا کوئی بندہ ایساہے کہ جس کو منع کرےتووہ اس کےکاروبارکو نقصان پہنچائے گا تو اس صورت میں تو دکاندار کےلیے خاموش رہنےکی گنجائش ہوگی، کیونکہ اس سے مقصود کاروبار چلانا یا بچاناہے جوکہ تاجروں کا طریقہ ہے، لیکن ان کے علاوہ صورت کوئی صورت ہوتو تو پھر آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ چیز اٹھانے والے کو منع کریں کیونکہ آپ امین ہے اورسامان کی حفاظت آپ کی ذمہ داری ہے۔

حوالہ جات
المبسوط للسرخسي (11/ 192)
(وعارية المفاوض وأكل طعامه وقبول هديته في المطعوم، وإجابة دعوته بغير أمر شريكه جائز لا بأس به) ولا ضمان على الداعي ولا على الآكل - استحسانا - وفي القياس: ليس له ذلك؛ لأنه يتصرف في نصيب شريكه بخلاف ما أمره به فإنه أمره بالتجارة، والعارية والإهداء واتخاذ الدعوة ليس بتجارة،ولكنه استحسن فقال: هذا من توابع التجارة، وهو مما لا يجد التاجر منه بدا. ألا ترى أن العبد المأذون يدعو المجاهدين إلى طعامه، ويهدي إليهم المطعوم ليجتمعوا عنده، والمأذون غير مالك لشيء من المال إنما هو تاجر، والمفاوض تاجر مالك لنصف المال، فلأن يملك ذلك كان أولى. وذكر حديث سلمان الفارسي - رضي الله عنه - قال: «أهديت لرسول الله - صلى الله عليه وسلم - وأنا عبد قبل أن أكاتب فقبل ذلك مني» . وحديث الأخرس بن حكيم عن أبيه - رضي الله عنه - «أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أجاب دعوة عبد» . وقال أبو سعيد مولى أبي أسيد - رضي الله عنه - قال: عرست وأنا عبد فدعوت رهطا من أصحاب رسول الله - صلى الله عليه وسلم - ورضي الله عنهم - فيهم أبو ذر - رضي الله عنه وعنهم - فأجابوني.قال: (ولو كسا المفاوض رجلا ثوبا، أو وهب له دابة، أو وهب له الفضة والذهب والأمتعة، والحبوب كلها لم يجز في حصة شريكه) ؛ لأنه تبرع، وإنما استحسن ذلك في الفاكهة واللحم والخبز وأشباه ذلك، مما يؤكل؛ لأنه إهداء ذلك إلى المجاهدين من صنيع التجار فأما في سائر الأموال الهبة ليس من صنيع التجار. والمرجع في معرفة الفرق بينهما إلى العرف

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

14/5/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے