82054 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
میرے تایا زاد بھائی مفتون احمد رضائے الہی سے وفات پاگئے ہیں،ان کی میراث کی تقسیم کے بارے میں راہنمائی فرمائیں،ورثا کی تفصیل درج ذیل ہے:
ایک بیوہ، دو بھائی اور تین بہنیں،مرحوم کی اولاد نہیں ہے اور والدین کا انتقال ہوچکا ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
جو سونا،چاندی،نقدی،جائیداد یا اس کے علاوہ کوئی بھی چھوٹا،بڑا سامان وفات کے وقت آپ کے مرحوم بھائی کی ملکیت میں تھا سب ان کا ترکہ ہے،جس میں ٪25 ان بیوی کو،٪21.428 ان کے ہر بھائی کو اور ٪10.714 ان کی ہر بہن کو ملے گا۔
حوالہ جات
"الدر المختار " (6/ 769):
"فقال: (فيفرض للزوجة فصاعدا الثمن مع ولد أو ولد ابن) وأما مع ولد البنت فيفرض لها الربع (وإن سفل والربع لها عند عدمهما) فللزوجات حالتان الربع بلا ولد والثمن مع الولد".
"الدر المختار " (6/ 775):
"ثم العصبات بأنفسهم أربعة أصناف جزء الميت ثم أصله ثم جزء أبيه ثم جزء جده (ويقدم الأقرب فالأقرب منهم) بهذا الترتيب ..... (ثم جزء أبيه الأخ) لأبوين (ثم) لأب......
ثم شرع في العصبة بغيره فقال (ويصير عصبة بغيره البنات بالابن وبنات الابن بابن الابن) وإن سفلوا (والأخوات) لأبوين أو لأب (بأخيهن) فهن أربع ذوات النصف والثلثين يصرن عصبة بإخوتهن".
محمد طارق
دارالافتاءجامعۃالرشید
19/جمادی الاولی1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد طارق غرفی | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب |