03182754103,03182754104

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زندگی میں جائیداد بیوی بچوں کے نام کروانے کا طریقہ
82110ہبہ اور صدقہ کے مسائلکئی لوگوں کو مشترکہ طور پرکوئی چیز ہبہ کرنے کا بیان

سوال

مجھے اللہ تعالیٰ نے دوسری بیوی سے دو بیٹیاں دی ہیں، میں یہ چاہتا ہوں کہ میں اپنی جائیداد کا کچھ حصہ اپنی بیویوں اور بچیوں کے نام کروا  کر ان کو مالکانہ طور پر ہبہ کر دوں، جس کی صورت یہ سوچی ہے کہ ایک فلیٹ ایک بچی کے نام کردوں، ایک مکان دوسری بیوی اور دوسری بچی کے نام اور دوسرا مکان  پہلی بیوی اور میرے درمیان مشترک ہو جائے، اس میں میرا حصہ تقریباً ستر یا پجھتر لاکھ روپیہ بنے گا، جو میری وفات کے بعد تمام ورثاء میں تقسیم ہو جائےگا، سوال یہ ہے کہ بیویوں اور بچیوں کو ملکیتاً دینے کا شرعی اعتبار سے کیا طریقہٴ کار ہے؟ تاکہ میرے بعد ان کو پریشانی لاحق نہ ہو۔نیز یہ دونوں مکان کرایہ پر دیے ہوئے ہیں، میرا اس میں کوئی سامان وغیرہ نہیں ہے اور پہلی بچی کو دیا جانے والا فلیٹ ابھی خریدنا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

زندگی میں اپنی جائیداد اپنے بیوی بچوں کے نام کروانا شرعی اعتبار سے ہبہ (ہدیہ) ہوتا ہے اوراس میں آپ کو اختیار ہے کہ آپ جتنی جائیداد چاہیں اپنے پاس رکھیں اور جتنی چاہیں اپنے بیوی بچوں کے درمیان تقسیم کر دیں، لیکن ہبہ کے شرعاً درست اور مکمل ہونے کے لیے موہوب لہ (ہبہ کی گئی چیز) چیز کا باقاعدہ قبضہ دینا ضروری ہے،  قبضہ دیے بغیر ہبہ مکمل نہیں ہوتا اورموہوب لہ کی طرف اس چیز کی ملکیت کا انتقال بھی نہیں ہوتا، لہذا مذکورہ صورت میں آپ مکان بیویوں اور بچیوں کے نام کروانے کے بعد ان کو قبضہ دینا ضروی ہو گا، مذکورہ صورت میں اس کا طریقہ یہ ہے کہ چونکہ یہ دونوں مکان کرایہ پر دیے گئے ہیں، اس لیے مکان نام کروانے کے بعد  پہلے آپ اپنی ایک بیوی سے یہ کہہ دیں کہ اس مکان میں سے آدھا حصہ میں نے آپ کو ہبہ کیا اور آدھا اپنی بچی کو ہبہ کے طور پر دے دیا،(اگرچہ یہ فقہی اعتبار سے یہ "ھبة المشاع" ہے، مگر دو وجہ سے اس کی گنجائش معلوم ہوتی ہے: اول : حضرات صاحبین رحمہما اللہ کا مذہب ایک چیز دو یا زیادہ آدمیوں کو مكمل طور پر بغیر تقسیم کے  ہبہ کرنا درست ہے اور ضرورت کے وقت اس پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ دوم :اگر اس مکان  کو تقسیم کرنے کی صورت میں یہ قابلِ رہائش نہ رہےتو "هبة المشاع فيما لايقسم"ہونے کی وجہ سے  حنفیہ کے نزدیک جائز ہوگا) اس کے بعد مکان کا قبضہ دینے کے لیے آپ اپنی بیوی کی طرف سے وکیل اور اپنی بچی کی طرف سے ولی کی حیثیت سے کرایہ دار سے دوبارہ کرایہ داری کا عقد کریں،جس میں آپ اپنی موہوب لہا (جس کو آدھا مکان ہبہ کیا گیا ہے)  بیوی کو بھی بتا دیں کہ اب یہ مکان آپ دونوں کا ہے، آپ اپنے حصے میں جیسا چاہے تصرف کر سکتی ہو، یہ اس لیے کہ مکمل صورتِ حال اس کے علم میں آجائے اور  اس کی طرف سےکرایہ داری کا نیا معاملہ کرنے  میں اس کی رضامندی شامل ہو جائے۔اسی طرح جب آپ آدھا مکان دوسری بیوی کے نام کروائیں تو اس کے ہبہ کو مکمل کرنے کے لیے بھی اسی طرح بیوی کو مکمل تفصیل بتا کر اس کے وکیل بن کر کرایہ دار سے اپنی طرف سے اور اپنی بیوی کی طرف سے دوبارہ کرایہ داری کا معاملہ کر لیں۔

 باقی آپ کی بچیاں چونکہ ابھی نابالغ ہیں اور آپ ان کے ولی ہیں تو ان کو مکان ہبہ کرنے کے بعد مکان پرآپ کا قبضہ شرعاان کا قبضہ شمار ہو گا، اس لیے مالک بنانے کی نیت سے بچیوں کو ہبہ کرنےسے ہی ملکیت ان کی طرف منتقل ہو جا ئے گی۔

حوالہ جات

رد المحتار:کتاب الھبة،  690/5،ط :ايچ ايم سعید:

(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلاً لملك الواهب لا مشغولاً به) والأصل أن الموهوب إن مشغولاً بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلاً لا، فلو وهب جرابًا فيه طعام الواهب أو دارًا فيها متاعه، أو دابةً عليها سرجه وسلمها كذلك لاتصح، وبعكسه تصح في الطعام والمتاع والسرج فقط؛ لأنّ كلاًّ منها شاغل الملك لواهب لا مشغول به؛ لأن شغله بغير ملك واهبه لايمنع تمامها كرهن وصدقة؛ لأن القبض شرط تمامها وتمامه في العمادية.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين  (6/ 714):

"الولاية في مال الصغير للأب ثم وصيه ثم وصي وصيه ولو بعد، فلو مات الأب ولم يوص فالولاية لأبي الأب ثم وصيه ثم وصي وصيه، فإن لم يكن فللقاضي ومنصوبه".

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

22/جمادی الاولیٰ 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب