021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تین طلاق پر دستخط کے بعد مسئلے سے لاعلمی کا دعویٰ کرنا
82113طلاق کے احکامتین طلاق اور اس کے احکام

سوال

میں اس سال اعتکاف پر بیٹھا تھا، جانے سے پہلے  میں نے اپنی بیوی سے کہا آپ اگر چاہو تو اپنی امی کے گھر چلی جانا ،اس نے کہا ٹھیک ہے۔ میں نے کہا گھر واپس آتے رہنا اور گھر پر کال کرتی رہنا، اس نے کہا ٹھیک ہے۔ میں اعتکاف میں بیٹھ گیا، میرا بھائی افطاری اور سحری دینے آتا تھا،  میں اس سے پوچھتا تھا کہ اس کی کال  آئی یا اس نے گھر چکر لگایا؟ بھائی کہتا تھا نہیں۔ میں تقریبا ہر دن پوچھتا اور یہی جواب ملتا تھا کہ نہ وہ آئی اور نہ ہی کال آئی۔ مجھے بھائی اور ماموں سے اطلاع ملی کہ اس وجہ سے گھر والے بھی  بہت خلاف ہوگئے ہیں اور رشتہ ختم کرنے تک کی بات ہورہی ہے۔ میں بھی بہت افسردہ تھا اور غصے میں تھا کہ میری بیوی کو میرا  احساس نہیں ہے ۔ میرا بھی دل خراب ہوگیا، خیر پھر عید سے ایک دو دن پہلے میں نے بھائی سے پوچھا کہ وہ آئی یا اس کی کال آئی ؟ اس نے کہا نہیں، میں نے بھائی سے کہا اس سے بول دینا "عید اپنے ماں باپ کے گھر ہی گزارے، واپس آنے کی کوئی ضرورت نہیں، اس کو اپنے ماں باپ کا گھر  ہی پیارا ہے تو ادھر ہی رہے۔" یہ بات بھائی کو بول دی اور اس نے بھی آگے بتا دیا  کہ بھائی کہہ رہا ہے عید اپنے گھر ہی گزاریں۔ میرے دل میں تھا کہ میں اس کی شکل نہ دیکھوں گا، میں حلفًا یہ بات کہتا ہوں کہ میں نے یہ الفاظ دل برداشتہ ہوکر اس نیت سے بولے کہ وہ مجھ سے جدا ہوجائے اور میرے ساتھ نہ رہے، رشتہ ختم کرنے کی نیت سے بولے تھے، ایک سوچ ہوتی ہے نا کہ میرا اس کا تعلق نہ رہے یا میرا اس کا کوئی واسطہ نہ رہے، یہ سوچ تھی میری۔ اور حلفاً یہ کہہ سکتا ہوں کہ مجھے معلوم بھی نہ تھا کہ ان الفاظ سے بھی طلاق ہوجائے گی۔ مجھے ٹھیک سے یاد نہیں کہ میرے دماغ میں طلاق کی نیت تھی یا نہیں، بلکہ میرے دماغ میں یہ تھا کہ وہ مجھ سے جدا ہوجائے اور میرے ساتھ نہ رہے۔ جب میں اعتکاف سے آیا تو سب ٹھیک ہو گیا، وہ میرے آنے کے بعد گھر آئی، اس کو بھی میں نے سب بتایا تھا، اس نے معافی مانگی اور ہم میاں بیوی کی طرح رہنے لگے۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا ان الفاظ سے طلاق ہوجائے گی؟ مطلب طلاق بائن؟   

ہماری 7 مئی کو بھی لڑائی ہوئی تھی جس میں میں نے کہا تھا "میں اس کے ساتھ نہیں چل سکتا"، لیکن

پھر سب ٹھیک ہوگیا اور ہم ساتھ رہنے لگے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 7 مئی کو وہ حالتِ حیض میں تھی،  محلے کے مفتی صاحب سے مسئلہ پوچھا تھا، انھوں نے کہا کہ رمضان میں طلاق بائن ہوگئی تھی، پھر عدت شروع  ہوگئی، اس کے بعد آپ کا ساتھ رہنا ناجائز تھا، اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں۔

اس معاملے کے تقریبا 90 دن بعد میں وکیل کے پاس گیا اور اس سے طلاق نامہ بنوایا، میں نے ایسا کچھ نہیں کہا کہ ایک طلاق لکھیں یا دو یا تین۔ اس نے طلاق نامہ میں یہ الفاظ لکھے:

I  hereby  Divorced   XYZ

I  hereby  Divorced   XYZ

I  hereby  Divorced   XYZ

میں نے دستخط کرنے سے پہلے اس سے کہا آپ مجھے طلاق نامہ دیدیں، جب میں ان کو بھیجوں گا تو دستخط کردوں گا، انہوں نے کہا نہیں، جب تک آپ دستخط نہیں کریں گے، اس وقت تک اس کی اٹیسٹیشن نہیں ہوگی اور آپ کو نہیں ملے گا، چنانچہ میں نے دستخط کر دئیے اور اپنی بیوی کو وہ طلاق نامہ بھیج دیا۔ مجھے ان الفاظ کا معنی معلوم تھا، لیکن میں حلفا یہ بات کہتا ہوں کہ میری تین طلاق کی نیت نہ تھی، نہ ہی  مجھے  اس تصور کا پتا تھا کہ ایک، دو یا تین طلاق کیا ہوتا ہے؟ مجھے پتا ہے میں جاہل انسان ہوں، مجھے معلوم ہونا چاہیے تھا، لیکن مجھ سے غلطی ہوگئی۔ میں ایک فیصد بھی جھوٹ نہیں بول رہا، اگر میں جھوٹ بولوں تو اللہ مجھے اس کی سزا دے۔ فرق پتہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ کام ہوگیا ۔ اللہ کی قسم مجھے پتا نہیں تھا کہ تین طلاق دینے سے کیا ہوگا ۔

اپنے علاقے کے مفتی صاحب کو بتایا، انھوں نے کہا رمضان میں آپ کی بیوی پر طلاق بائن ہوگئی تھی، اس کے بعد کوئی طلاق نہیں ہوتی۔ ان کے ساتھ حساب لگایا، 7 مئی کو پہلا حیض،  پھر 30 دن بعد 8 جون کو دوسرا حیض، پھر 30 دن بعد نو جولائی کو تیسرا حیض اور 18 جولائی کو یہ صریح طلاق دی۔ تو ان کا کہنا ہے کہ آپ نے 18 کو جو تین طلاقیں دی ہیں وہ لغو ہیں۔ میں نے دو فتوے  دیکھے جس میں میرے لیے گنجائش ہے، وہ بھی ساتھ لگا رہاہوں، اگر ان پر عمل کروں گا تو کیا ناجائز ہے؟ آپ کایہ کہنا بھی میرا گھر بچا سکتا ہے کہ میں اس پر عمل کر سکتا ہوں۔ دونوں ہی ادارے فقہ حنفی اور علما، دیوبند کے ہیں۔ میری بیوی 18 جولائی سے پہلے اپنے میکے گئی ہوئی ہے، ابھی میرا اس سے رابطہ نہیں۔  

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق رمضان میں یہ الفاظ "واپس آنے کی کوئی ضرورت نہیں، اس کو اپنے ماں باپ کا گھر  ہی پیارا ہے تو ادھر ہی رہے" کہنے سے آپ کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی تھی؛ کیونکہ یہ الفاظ کنایاتِ طلاق میں سے نہیں؛ اس قسم کے الفاظ عموما صرف ناراضگی کے اظہار کے لیے بولے جاتے ہیں۔ اگر ان الفاظ کو کنایاتِ طلاق میں سے شمار کیا جائے تو بھی چونکہ سائل کو ان الفاظ سے طلاق واقع ہونے یا نہ ہونے کا کوئی علم نہیں تھا، اس لیے طلاق کی نیت نہ ہونا بظاہر واضح ہے۔ لہٰذا بعد میں تین طلاق پر مشتمل طلاق نامہ پر دستخط کرنے کی وجہ سے آپ کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوکر حرمتِ مغلظہ ثابت ہوگئی ہے؛ اب نہ رجوع ہوسکتا ہے، نہ آپ دونوں کا دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے۔ جہاں تک فتاویٰ دار العلوم زکریا کے منسلکہ فتویٰ کا تعلق ہے تو اس میں سوال نو مسلم شخص کے بارے میں ہے جس کے حق میں مسئلہ سے ناواقفیت عذر بن سکتا ہے، جبکہ صورتِ مسئولہ میں ایسا نہیں، لہٰذا اگر آپ کو واقعۃً مسئلے کا علم نہیں تھا تب بھی جہالت عذر نہیں بن سکتا۔ نیز آپ بیوی کو طلاق نامہ دے چکے ہیں اور شرعا عورت قاضی کی طرح ہوتی ہے یعنی وہ ظاہر پر عمل کرنے کی پابند ہوتی ہے، اس وجہ سے اب اس کے لیے جائز نہیں کہ دوبارہ آپ کے ساتھ نکاح کرے۔    

حوالہ جات
بدائع الصنائع (3/ 107-98):
ركن الطلاق هو اللفظ الذي جعل دلالة على معنى الطلاق لغة، وهو التخلية والإرسال ورفع القيد في الصريح وقطع الوصلة ونحوه في الكناية، أو شرعا، وهو إزالة حل المحلية في النوعين، أو ما يقوم مقام اللفظ. أما اللفظ فمثل أن يقول في الكناية أنت بائن أو ابنتك أو يقول في الصريح أنت طالق أو طلقتك وما يجري هذا المجرى…….. وأما الذي يقوم مقام اللفظ فالكتابة والإشارة على ما نذكر إن شاء الله تعالى. ........... الخ
ولو قال "لا حاجة لي فيك" لا يقع الطلاق وإن نوى؛ لأن عدم الحاجة لا يدل على عدم الزوجية، فإن الإنسان قد يتزوج بمن لا حاجة له إلى تزوجها، فلم يكن ذلك دليلا على انتفاء النكاح، فلم يكن محتملا للطلاق.
الأشباه والنظائر (ص: 72):
ولو كرر لفظ الطلاق فإن قصد الاستئناف وقع الكل، أو التأكيد فواحدة ديانة والكل قضاء، وكذا إذا أطلق.
رد المحتار (3/ 293):
قوله ( كرر لفظ الطلاق ) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق……. قوله (وإن نوى التأكيد دين ) أي ووقع الكل قضاءً، وكذا إذا أطلق، أشباه، أي بأن لم ينو استئنافا ولا تأكيدا؛ لأن الأصل عدم التأكيد.
تنقيح الفتاوى الحامدية (1/ 264):
( سئل ) في رجل قال لزوجته روحي طالق وكررها ثلاثًا ناويًا بذلك جميعه واحدة وتأكيدًا للأولى وزجرها وتخويفها وهو يحلف بالله العظيم أنه قصد ذلك لا غيره فهل يقع عليه بذلك واحدة رجعية ديانة حيث نواها فقط وله مراجعة زوجته في العدة بدون إذنها حيث لم يتقدم له عليها طلقتان ؟ ( الجواب ) : لا يصدق في ذلك قضاء؛ لأن القاضي مأمور باتباع الظاهر والله يتولى السرائر، وإذا دار الأمر بين التأسيس والتأكيد تعين الحمل على التأسيس كما في الأشباه، ويصدق ديانة أنه قصد التأكيد ويقع عليه بذلك طلقة واحدة رجعية ديانة حيث نواها فقط، وله مراجعتها في العدة بدون إذنها حيث لم يتقدم له عليها طلقتان؛ لأن روحي طالق رجعي كما في الفتاوى الخيرية والتمرتاشي وغيرهما، وأما روحي فقط فإنه كناية؛ إذ هو كاذهبي كما صرح به صاحب البحر، لكن لا يصدق أنه قصد التأكيد إلا بيمينه؛ لأن كل موضع كان القول فيه قوله إنما يصدق مع اليمين؛ لأنه أمين في الإخبار عما في ضميره، والقول قوله مع يمينه، كما في الزيلعي وأفتى بذلك التمرتاشي .
وقال في الخانية: لو قال أنت طالق أنت طالق أنت طالق وقال أردت به التكرار صدق ديانةً، وفي القضاء طلقت ثلاثا .ا هـ . ومثله في الأشباه والحدادي، وزاد الزيلعي أن المرأة كالقاضي، فلا یحل لها أن تمکنه إذا سمعت منه ذلك أو علمت به؛ لأنها لا تعلم إلا الظاهر، اه.
الفتاوى الهندية (1/ 354):
ولو قال لها: أنت طالق ونوى به الطلاق عن وثاق لم يصدق قضاء ويدين فيما بينه وبين الله تعالى، والمرأة كالقاضي لا يحل لها أن تمكنه إذا سمعت منه ذلك أو شهد به شاهد عدل عندها.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

       27/جمادی الاولیٰ/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے