021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بغیر پڑھانے کے حکومت کی طرف سے ملنے والی تنخواہ کا حکم
82128اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے جدید مسائل

سوال

ایک صاحب ایک سرکاری اسکول میں سیکنڈ ٹائم میں استاذ تھے، کچھ عرصہ بعد ان کی تبدیلی صبح والی شفٹ میں ہوئی، اب ان کے ذمہ لگائی گئی کتاب کسی اور استاذ نے ختم کی، جبکہ ہیڈ ماسٹر صاحب مسلسل دو ماہ تک ان کی حاضری لگاتے رہے، جبکہ موصوف مسلسل صبح والی شفٹ میں مصروف رہے اور ان دوماہ میں ظہر کے بعد بالکل حاضری نہیں لگائی، اب ان دو ماہ کی تنخواہ آ چکی ہے، جس کے لیے استاذ اور ہیڈ ماسٹر کا مطالبہ ہے کہ یہ ہمیں دی جائے، اس سلسلے میں سوالات درج ذیل ہیں:

1۔كيا يہ تنخواه مذکورہ کتاب پڑھانے والے اساتذه یا ہیڈ ماسٹركے ليے جائز ہے؟ کیا یہ تنخواہ وہ استاذ خود استعمال کرسکتا ہے؟

2۔ کیا یہ تنخواہ سرکاری خزانے میں واپس کرنا لازم ہے؟

3۔ اگر یہ تنخواہ آج کل کے مہنگائی کے دور میں فقراء پر خرچ کر دی جائے تو کیا یہ جائز ہے؟

وضاحت: سائل نے بتایا کہ جب یہ استاذ پہلے وقت میں شفٹ ہو گیا تو سیکنڈ ٹائم میں قانونی اعتبار سے اس کا نام ختم کرنا چاہیے تھا، لیکن ہیڈ ماسٹر نے اس کا نام ختم نہیں کیا، بلکہ بارہ تیرہ دن ایک استاذ نے بقیہ کتاب پڑھا کر نصاب مکمل کر دیا اور ہیڈ ماسٹر نے اس کی دوماہ کی حاضر لگوا دی، جس کی بنیاد پر سابقہ استاذ کے نام حکومت کی طرف سے دو ماہ کی تنخواہ آ گئی، جبکہ اس استاذ کے نام پر اس کے اکاؤنٹ میں  پہلے وقت کی تنخواہ بھی آ چکی ہے، گویا کہ ایک استاذ کے نام پر دو تنخواہیں جاری ہو گئیں، جو کہ قانوناً درست نہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1،2،3۔ صورتِ مسئولہ میں چونکہ ایک استاذ کے نام پر دو تنخواہیں جاری ہوئی ہیں، جو کہ قانونی نقطہٴ نظر سے درست نہیں، اس لیے یہ اساتذہ اور ہیڈ ماسٹر اس تنخواہ کے مستحق نہیں ہیں اور سابقہ استاذ بھی اس تنخواہ کا حق دار نہیں ہے، کیونکہ وہ پہلے وقت میں منتقل ہو چکا ہے اور اس کی مکمل تنخواہ اپنے وقت میں جاری ہے، باقی یہ تنخواہ فقراء ومستحقین میں بھی صرف نہیں کی جا سکتی، کیونکہ یہ رقم حکومت کی ملکیت ہے، اس لیے دوسرے وقت میں اس کی جگہ پر دو ماہ کی آنے والی تنخواہ حکومت کو واپس کرنا ضروری ہے، جس کا طریقہ یہ ہے کہ کسی بھی سرکاری ٹرین کا خالی ٹکٹ خرید کر پھاڑ دیں یا یہ کہ گورنمنٹ کےکسی بینک میں جا کر حکومتی اکاؤنٹ میں اتنی رقم جمع کروا دیں تو یہ استاذہاپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جائے گا۔

حوالہ جات
 الجوهرة النيرة :كتاب الوديعة، ج:1، ص:346، ط:المطبعة الخيرية:
"والأمانة هي الشيء الذي وقع في يده من غير قصد بائن ‌ألقت ‌الريح ثوبا في حجره."
الفتاوی  الهندیة :كتاب الوديعة، الباب الأول، ج:4، ص:339، ط:دارالفكر:
"وأما حكمها فوجوب الحفظ على المودع وصيرورة المال أمانة في يده ووجوب أدائه عند طلب مالكه، كذا في الشمني. الوديعة لا تودع ولا تعار ولا تؤاجر ولا ترهن، وإن فعل شيئا منها ضمن، كذا في البحر الرائق."

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

23/جمادی الاولیٰ1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے