021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عورت کامحرم کےبغیر اپنی بہن اوربہنوئی کےساتھ حج پرجانا
82048حج کے احکام ومسائلحج کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

کیافرماتےہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ ایک خاتون کوحج پرجاناہے،اس کےساتھ جانےکےلیےکوئی محرم نہیں ہے،البتہ اس کی بہن اپنےشوہرکےساتھ حج پرجارہی ہے،توکیا خاتون اپنی بہن اور بہنوئی کےساتھ حج پرجاسکتی ہے؟

            

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

عورت کےلیےبغیرشوہریابغیرمحرم کےحج کےلیےجاناجائزنہیں،اگرمحرم نہ ہوتووہ شرعا حج کوآخری عمرتک مؤخرکرسکتی ہےاوراگرزندگی بھرمحرم کابندوبست نہ ہوسکےتو وصیت بھی کی جاسکتی ہے۔

چونکہ بہنوئی سالی کےلیےمحرم نہیں  ،لہذاسالی کےلیےبہنوئی کےساتھ حج پرجاناشرعاجائزنہیں ہوگا۔

البتہ دارالافتاء جامعۃ الرشیدسےجاری شدہ فتوی میں جوازکی متبادل صورت پیش کی گئی ہے،شرعااس کی گنجائش بھی ہے،فتوی میں مذکورہ شرائط کےمطابق پابندی کرکےعمل کیاجاسکتاہے:

خاتون کامحرم کےبغیرحج وعمرہ کےلیےجانےکاحکم :

(امام مالک اورامام شافعی رحمہما اللہ فرماتےہیں  کہ اگرکسی خاتون پرحج فرض ہواوراس کاشوہریاکوئی محرم نہ ہویاہو،لیکن اس کےساتھ جانےکی استطاعت نہ رکھتاہو،اوراس خاتون کی عمر وغیرہ ایسی ہوکہ سفرکےدوران کسی فتنہ میں مبتلاء ہونےکااندیشہ نہ ہو،اورقابل اعتمادعورتوں کی جماعت کےساتھ جارہی ہوتووہ ان شرائط کےساتھ فرض حج کی ادائیگی کےلیےجاسکتی ہے،حج کےلیےجو گروپس جاتےہیں اگران میں قابل اعتماد خواتین موجود ہوں تو آخری شرط (قابل اعتمادخواتین کی جماعت)پوری سمجھی جائےگی ورنہ نہیں۔

اگرکسی بڑی عمرکی خاتون پرحج فرض اور ہواورمذکورہ بالاتمام شرائط موجود ہوں توبعض اہل علم اسےامام مالک اورامام شافعی رحمہمااللہ کےمسلک پرعمل کرنےکی گنجائش دیتےہیں)

) از تبویب دارالافتاء جامعۃ الرشید فتوی نمبر 78324/62)

حوالہ جات
"رد المحتار"8 / 130:
( قوله ومع زوج أو محرم ) هذا وقوله ومع عدم عدة عليها شرطان مختصان بالمرأة فلذا قال لامرأة وما قبلهما من الشروط مشترك والمحرم من لا يجوز له مناكحتها على التأبيد بقرابة أو رضاع أو صهرية كما في التحفة۔
"بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع " 4 / 362:
( ولنا ) ما روي عن ابن عباس رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال : ألا { لا تحجن امرأة إلا ومعها محرم } ، وعن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال : { لا تسافر امرأة ثلاثة أيام إلا ومعها محرم أو زوج } ولأنها إذا لم يكن معها زوج ، ولا محرم لا يؤمن عليها إذ النساء لحم على وضم إلا ما ذب عنه ، ولهذا لا يجوز لها الخروج وحدها ۔
"بحوث فی قضایا فقہیہ معاصرۃ "323/1:
 سفر المرأة بغير مَحْرَم:
أخرج مسلم : عن أبي سعيد الخدري الله ، قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔
لا تسافر المرأة فوق ثلاث إلا ومعها زوجها أو ذو رحم محرم منها ۔
هذا الحكم الصريح قد أخذ به جمهور الفقهاء، حتى إنهم لم يجوزوا لها أن تسافر بدون محرم لضرورة الحج، وإن الدراسة والعمل في البلاد الأجنبية ليس من ضرورة النساء المسلمات في شيء، فإن الشريعة لم تأذن للمرأة بالخروج من دارها إلا لحاجة ملحة، وقد ألزمت أباها أو زوجها بأن يكفل لها جميع حاجاتها المالية، فليس لها أن تسافر بغير محرم لمثل هذه الحوائج ۔
أما إذا كانت المرأة ليس لها زوج أو أب أو غيرهما من أقاربها الذين يكفلون لها بالمعيشة، وليس عندها من المال ما يسد حاجتها ، فحينئذ يجوز لها أن تخرج للاكتساب بقدر الضرورة، ملتزمة بأحكام الحجاب، فيكفي لهافي مثل هذه الحال أن تكتسب في وطنها،ولاحاجة لهاإلى السفرإلى البلاد الأجنبية، ولولم تجد بداً من السفر في وطنها من بلد إلى آخر، ولم تجد أحداً من محارمها، ففي مثل هذه الحالة فقط يسع لها أن تأخذ بمذهب مالك والشافعي؛ حيث جوزوالها السفرمع النساءالمسلمات الثقات  ۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی

17/جمادی الاولی     1445ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے