021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دوطلاق بائن کےبعدخاندان کی طرف سےمجبوری میں طلاق نامہ پردستخط کردیےتوکیاحکم ہوگا؟
82181طلاق کے احکاممدہوشی اور جبر کی حالت میں طلاق دینے کا حکم

سوال

سوال:خلاصہ استفتاء :دوسری شادی کےبعدسےگھرمیں لڑائی جھگڑےشروع ہوئے،دوسری بیوی برابری کےحقوق کامطالبہ کرتی تھی،جبکہ بندہ مختلف خاندانی اورمعاشرتی بنیادوں پراسےبرابرحقوق نہیں دےسکتاتھا،اس کےبعد سےکبھی کبھی حالات کشید ہوجاتےتھے،ایک دفعہ آپس میں کشیدگی اورخاندانی دباؤکی وجہ سےمیں نےکنایہ الفاظ میں اپنی دوسری بیوی کوایک طلاق لکھ دی،اوراس کےایک مہینےبعد ہم دونوں میں صلح ہوگئی،اورہم نےکورٹ جاکر رجوع کرلیا۔(سائل نےوضاحت کی  ہےکہ باقاعدہ تجدید نکاح ہواتھا)

اس کےبعد ایک دن میں نےاپنی بیوی سےکہاکہ  میری اجازت کےبغیرگھرسےکہیں نہ جانا ،گئی توواپس نہ آنا،میری طرف سےفارغ ہوجاؤگی،اس کےبعد 10،15دن بعد بیوی ناراض ہوکربچےکوساتھ لےکرمیری اجازت کےبغیرچلی گئی اوردوتین گھنٹےبعد واپس آگئی،اس کےبعد آپس میں بات چیت چلتی رہی،میں اس پرمصرتھاکہ اس کےوالدین اس کواپنےگھرلےجائیں لیکن وہ جانےکےلیےتیارنہ تھی،اس دوران میں یہ سمجھتارہاکہ ہمارےرشتہ میں کوئی خلل نہیں آیا،جبکہ ایک قریبی دوست کےجاننےوالےمفتی صاحب نےبتایاکہ طلاق بائن واقع ہوچکی ہے۔

کچھ دنوں بعدبندہ کےخاندان والوں نےجرگہ کےذریعہ ہمارےدرمیان علیحدگی کافیصلہ کرلیا،جبکہ میں ذہنی طورپرالگ ہونےکےلیےتیارنہیں تھا،دوسری طرف لڑکی کےحوالےسےبھی پتہ چلاکہ وہ بھی ساتھ رہنےکےلیےتیارہے،اس کےبعدلڑکی سےخفیہ رابطہ بھی ہوگیا،اوراس کےبعدہم دونوں کواپنی غلطی کااحساس ہوا،اس دوران گھروالوں کااصرارتھاکہ آپ طلاق دےدیں،اس حوالےسےعلاقےکےایک مفتی افراز صاحب سےمشورہ کیا،ان کاکہناتھاکہ اگرآپ نےایک طلاق بھی دی تو آپ کارشتہ ہمیشہ کےلیےختم ہوجائےگا،فیملی مجھے تحریری طلاق کےلیےکہتی رہی،لیکن میں نےلکھ کرنہیں دی،میرےایک کزن جو دبئی سےآئےتھے،اس سےمعاملہ ڈسکس کیاتواس نےبھی پریشرمیں ڈال دیاکہ اگرطلاق نہ دی تو برادری الگ کردےگی،اسی اثناء میں میرےبہنوئی جو فیصلےمیں شامل تھے،انہیں میرےٹال مٹول کااندازہ ہواتومیری ہمشیرہ کو میرےگھر بھیجاکہ اگرشام تک تحریری طلاق نہیں دیتاتواس  کےبعد تم بھی میرےگھر نہ آنا،اس کی وجہ سےمجھ پر اور دباؤپڑا،اس کےبعد اپنےکزن اوربھابھی کےپاس گیاکہ میں اپنی بیوی سےرشتہ نہیں ختم نہیں کرناچاہتا،آپ لوگ کچھ کریں،میں نےتوبیوی کو ڈرانےدھمکانےکےلیےیہ الفاظ کہےتھےطلا ق کی نیت تو نہیں تھی،اسی دوران میرےبہنوئی میری فیملی کےچند لوگوں کو لےکر ادھرکزن کے پا س آگئے،ادھر انہوں نےمجھے زدوکوب کیا،اورکہاکہ اب اس فیصلےسےایک انچ بھی نہیں ہل سکتا،ورنہ ہم اس کےساتھ وہ کردیں گے،اوربہت غصےمیں آگئے،سب خاموش ہوگئےاور میں خوفزدہ ہوگیا،اس کےبعد میں چپ رہا،تواگلےدنوں میں مجھے مزید ڈرایاگیاکہ اگرتم نہیں ایساکرتےتودونوں برادریوں کےسارےلوگ اکٹھےہونگےدوبارہ جرگہ لگےگاپھرتم خود ادھر جواب  دینا،پھریہ باتیں چلیں کہ ہم سب خاندان والےاس کاساتھ چھوڑدیں گے،میں چونکہ گورنمنٹ ٹیچرتھا،اس لیےمجھےیہ بھی دھمکی دی گئی کہ تم نوکری سےterminate ہوجاؤگے،معاشرےمیں پہلےسےمیری دوسری شادی کی وجہ سےایک نامقبولیت پائی جاتی تھی،اس سب ذہنی دباؤمیں میرےپاس کوئی چارہ نہ تھا،اپنےگھروالوں کےدباؤکےساتھ ساتھ لڑکی کےخاندان والوں کی طرف سےپیغام تھاکہ اب اگریہ واپس ہوتےہیں تو میں ان کوگولی ماردونگا،یہ بات مجھے لڑکی نےبتائی تھی،اگرچہ مجھےاس پر یقین نہیں تھا،ان سب باتوں کی وجہ سےمیرےحالات اس قدرخراب اورمیرےلیےاس قدرمشکلات ہوسکتی تھیں  جن کامیں متحمل نہیں ہوسکتاتھا۔

بلآخرمیں میرےایک کزن جو آرمی میں خطیب ہیں ،گھرآئےو ہ نرم طبیعت تھے،میں نےان کو بتایاکہ  میں اپنےلیےراستہ بند نہیں کرناچاہتا،گوکہ ابھی کےلیےحالات میرےلیےسازگارنہیں،پرمستقبل کےلیےسہی،انہوں نےمجھے طریقہ بتایاکہ آپ ماضی کےصیغےمیں اپنی دوطلاقیں لکھ دو،جبکہ میں دوسری بھی نہیں لکھناچاہتاتھا،کیونکہ اس دوران مجھے معلومات ملی کہ اگرکنایہ الفاظ میں طلاق کی نیت نہ ہوتوطلاق واقع نہیں ہوتی،پرمیں اس خاندانی اورمعاشرتی جبرمیں آکرایک پہلےوالی اورایک اس واقع ہونےوالی طلاق  کولکھ کر اپنی جان چھڑانا چاہتاتھا،لیکن مجھےجرگہ کے تین چار لوگوں  کےپاس لےجاکر وہاں میرےنام پراسٹامپ  پیپرلاکرخودہی طلاق لکھی جانےلگی،جس پرمیں نےاعتراض کیا،لیکن میری بات نہیں سنی گئی،میں نےکہاکہ میں ایسےنہیں کرناچاہتا،۔۔۔۔لیکن جرگہ والوں نےکہاکہ یہ گناہ آپ ہمارےسر ڈال دیں اورسائن کردیں،آگےکےحالات کومدنظررکھتےہوئےمیں سابقہ خاندانی اورمعاشرتی دباؤمیں آکرمیں نےآنکھیں بندکرکےغیر ارادی طورپر سائن کردیے،اورذہن میں رکھاکہ میں ایسےہی کسی پیپرپرسائن کررہاہوں ،چونکہ میں یہ بھی نہیں بتاسکتاتھاکہ ہم دونوں رابطےمیں ہیں،اوردونوں واپس ہوناچاہتےہیں کیونکہ 10 لاکھ کافائن تھا ،اوردیگرمشکلات جن کاسامنا کرنا میرےبس میں نہ تھا۔

تاہم ہم دونوں نےدل سےاس فیصلےکوتسلیم نہ کیا اورشرعی معلومات لیناشروع کردی،مکتبہ اہل حدیث سےہمیں ایک فتوی بھی مل گیااوروقت کےساتھ ساتھ ہمارےرابطےکابھی علم ہوگیا،جس پرمیری فیملی نےمجھ پراتنی سختی کہ ایک بارپھرخاندان کواکٹھا کرکےمجھ پرتشددکی حدتک چلےگئے۔۔۔

اسی دوران مفتی طارق مسعود کاایک ویڈیوکلپ ہمیں ملا،جس میں انہوں نےمسئلہ بتایاتھاکہ ذہنی دباؤ ڈال کرتحریرپرسائن کروانےسےطلاق واقع نہیں ہوتی،اس کےبعد لڑکی کےگھرجانےسےتین ماہ  کےاندرہم دونوں نےزبانی اورتحریری رجوع کرلیا،برادری کےمعززین سےبھی ہم نےاستدعاء کی کہ ہمارامعصوم بچہ بھی ہےہمارےپاس شرعی گنجائش ہے،لیکن اس کےبعد ہرطرف سےمجھ پردباؤڈالاگیا،اوربرادری سےآؤٹ کرنےکی دھمکی دی گئی،کوئی تھانےمیں بندکروانےکی دھمکی دیتاتوکوئی برادری کی سطح پرکاروائی کی حتی کہ میرےادارےکےسربراہ کوبھی کال کرکےمیرےخلاف کاروائی کاکہا،ادارےکےسربراہ نےبھی مجھے کہاکہ اپنےمعاملات درست کرلو ورنہ یہ سوشل میڈیاکا دور ہے،آپ کو نقصان ہوجائےگا۔

مزیدیہ کہ میری پہلی بیوی کےخاندان والےبھی آگئےاورانہوں نےبھی پیچھےہٹنےکو کہا۔

کچھ دنوں بعد دونوں برادریوں نےمشترکہ جرگہ بلاکر میرےخلا ف اسکول میں اورمعاشرےمیں کاروائی کرنی تھی،پہلی بیوی کےخاندان والوں نےآکرجائز ناجائزشرطیں رکھناشروع کردیں،جنہیں میں کسی صورت پورانہیں کرسکتاتھا،مجھے ذہنی طورپراس قدرٹارچرکیاگیاکہ میں نےآگےنہ بڑھنےکافیصلہ کیا،جس پرمنشاءصاحب جوایک وکیل ہیں انہوں نےایک پھرپہلی طلاق کی توثیق میں طلاق نامہ لکھ کر مجھ سےسائن کروادیا،جبکہ میں نےکسی کو طلاق لکھنےکونہیں کہاتھا،اگرمیں ایسانہ کرتاتو آگےکےحالات اتنےبھیانک تھےکہ جن کو برداشت کرنےکامیں میں متحمل نہیں تھا،اورخود منشاء صاحب اور کچھ لوگ میری خودکشی کی پیشن گوئی کررہےتھے۔

اس تفصیل کی روشنی میں مجھے شرعی راہنمائی دی جائےکہ :

  1. کیااس خاندانی ،معاشرتی ،اوراخلاقی جبرمیں ہماری طلاق واقع ہوچکی ہے؟
  2. اوراگردین ہمیں کوئی راستہ دیتاہےتوہم دونوں کیاطریقہ اختیارکرکےواپس ہوسکتےہیں ؟
  3. جولوگ ہماری اس شرعی گنجائش کوتسلیم نہیں کرتےاورہمارےرشتےکوحرام کہیں،ان کےلیےشریعت کاکیاحکم ہے؟

نوٹ :اس دورانیےمیں اورنہ ہی اس سےقبل ایک بھی بارمیں نےاپنی دوسری بیوی کو زبانی طورپرصریح  اورنہ ہی کنایہ الفاظ میں طلاق دی ہے،پہلی بار بھی کنایہ الفاظ تحریرکیےتھے جبکہ دوسری مرتبہ کنایہ الفاظ میں یہ شرط لگائی تھی جس میں بھی میری نیت طلاق کی نہیں تھی۔

             

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

۱،۲۔پہلی دوطلاقیں تو واقع ہوچکی ہیں،تیسری طلاق میں مذکورہ تفصیل کےمطابق چونکہ اکراہ اورجبر(جوشرعامعتبرہوتاہے)کی صورت پائی جارہی ہے،لہذااگرطلاق نامہ نہ خودلکھاہو،نہ بنوایاہواورنہ ہی زبان سے طلاق کےکوئی الفاظ ذکر کیےگئے،اور دستخط کرتےوقت  طلاق کی نیت بھی  نہیں تھی،تو شرعاتیسری طلاق واقع نہیں ہوئی،لہذا آپ  دوبارہ تجدیدنکاح  کےبعددوسری بیوی کےساتھ رہ سکتےہیں۔

۳۔جولو گ آپ کےدوسری بیوی کےساتھ رہنےکوحرام سمجھتےہیں،ان کو سمجھاناآپ کی ذمہ داری ہے،علاقےکےمعززمفتیان کرام کو درمیان میں  ڈال کر پوری صورت حال بتائیں تاکہ وہ لوگوں کوسمجھائیں۔

حوالہ جات
"حاشية رد المحتار" 3 / 271:
وكذا كل كتاب لم يكتبه بخطه ولم يمله بنفسه لا يقع الطلاق ما لم يقر أنه كتابه اه ملخصا۔
"رد المحتار" 10 / 458:
وفي البحر أن المراد الإكراه على التلفظ بالطلاق ، فلو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لا تطلق لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا كذا في الخانية ۔
"الفتاوى الهندية " 8 / 365:
رجل أكره بالضرب والحبس على أن يكتب طلاق امرأته فلانة بنت فلان بن فلان فكتب امرأته فلانة بنت فلان بن فلان طالق لا تطلق امرأته كذا في فتاوى قاضي خان ۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی

27/جمادی الاولی     1445ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے