021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شوہر کے انتقال کے بعد بیوہ اور بچی کے نفقہ کا حکم
82131نان نفقہ کے مسائلنان نفقہ کے متفرق مسائل

سوال

میرے شوہر ............ کا ایکسیڈنٹ میں انتقال ہوا، اس وقت میں امید سے تھی، اب میری بچی ہوگئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ دورانِ عدت و زچگی اور اس کے بعد میرے اور میرے چھوٹی بچی کے ............ مرحوم کے گھر والوں پر کیا حقوق اور فرائض ہیں، بالخصوص اخراجات کے حوالے سے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

آپ کا اور آپ کی بیٹی کا ............ مرحوم کے گھر والوں پر سب سے پہلا حق میراث ہے، ان پر لازم ہے کہ میراث میں آپ کو اور آپ کی بیٹی کو اپنا اپنا شرعی حصہ دے، البتہ بچی کا حصہ بطورِ امانت اپنے پاس رکھنے کا حق اس کے دادا (............ مرحوم کے والد) کا ہوگا۔

جہاں تک نفقہ اور اخراجات کا تعلق ہے تو دورانِ عدت و زچگی یا اس کے بعد آپ کا نفقہ (اخراجات) شوہر کے مال میں یا اس کے گھر والوں پر لازم نہیں۔ اگر آپ کی بچی کا اپنا مال ہو (مثلا والد سے میراث میں حصہ مل جائے) تو پھر اس کا نفقہ اور اخراجات اس کے اپنے مال میں سے ادا کیے جائیں گے، اگر کوئی اور اس کے اخراجات بطورِ تبرع خود برداشت کرے گا  تو وہ اس کا احسان ہوگا۔ لیکن اگر بچی کا اپنا مال نہ ہو تو پھر اس کا نفقہ اور اخراجات اس کے دادا پر لازم ہوں گے۔  

حوالہ جات
الدر المختار مع رد المحتار(3/ 76):
( الوالي في النكاح ) لا المال ( العصبة بنفسه ) وهو من يتصل بالميت حتى المعتقة ( بلا توسطة أنثى ) بيان لما قبله ( على ترتيب الإرث والحجب ).قوله ( لا المال ) فإنه الولي فيه الأب ووصيه والجد ووصيه والقاضي ونائبه فقط، ح.
الدر المختار مع رد المحتار(3/ 610):
( لا ) تجب النفقة بأنواعها ( لمعتدة موت مطلقا ) ولو حاملا.قوله ( ولو حاملا ) قال القهستاني: وقيل للحامل النفقة في جميع المال، كما في المضمرات.
الفتاوى الهندية (1/ 564-560):
نفقة الأولاد الصغار على الأب لا يشاركه فيها أحد كذا في الجوهرة النيرة…… وإن كان للصغير عقار أو أردية أو ثياب واحتيج إلى ذلك للنفقة كان للأب أن يبيع ذلك كله وينفق عليه، كذا في الذخيرة…….. والصحيح من المذهب أن الأب الفقير ملحق بالميت في حق استحقاق النفقة على الجد. …… ونفقة الإناث واجبة مطلقا على الآباء ما لم يتزوجن إذا لم يكن لهن مال، كذا في الخلاصة……. وإن كان الأب قد مات وترك أموالا وترك أولادا صغارا كانت نفقة الأولاد من أنصبائهم، وكذا كل ما يكون وارثا فنفقته في نصيبه، وكذلك امرأة الميت تكون نفقتها في حصتها من الميراث حاملا كانت أو حائلا.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

      28/جمادی الاولیٰ/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے