021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاق کےبعد بخشش کے طور پر دیےگئےسونے کا حکم
82125ہبہ اور صدقہ کے مسائلکئی لوگوں کو مشترکہ طور پرکوئی چیز ہبہ کرنے کا بیان

سوال

مورخہ 2018 07July بروز ہفتہ وردہ بنت اقبال کا نکاح محمد اویس  امین کے ساتھ منعقد ہوا تھا،نکاح کے وقت بھری محفل میں دو گواہان ان کی طرف سے اور دو گواہان ہماری طرف سے تھے،  جس میں ان کی خوشی اور رضا مندی سے یہ طے ہوا تھا کہ 2 تولہ سونا حق مہر 8 تولہ سونا بخشش کے طور پر ہے،  جس پر انہوں نے بھری محفل میں یہ کہا تھا کہ اس پر صرف لڑکی کا حق ہے اور شادی کی رات منہ دکھائی پر 1 تولہ سونا دیا تھا، ہماری طرف سے لڑکی کا جہیز کپڑے، جیولری ، چپلیں، بیگز، میک اپ سامان برتنوں کے بڑے سیٹ، چھوٹے سیٹ، کپڑے دھونے والی مشین،سلائی مشین اور دیگر سامان جس میں فرنیچر اور فریج کے بدلے 3.5 تولہ سونا اور مزید ناک کی لونگز کان کے 2،3 ٹاپس بھی شامل تھے، جس میں سے کچھ ٹائم بعد انہوں نے جہیز کا بڑا سامان برتن برتنوں کے چھوٹے سیٹ واشنگ مشین اور LED خوشی سے  واپس کردیا تھا۔

شادی کے بعد سے لڑکے کی طرف سے لڑکی پر زیادتیاں وغیرہ تھی، جس میں مارپیٹ، بیوی کا کوئی حق نہ دینا، بیوی کے شرعی حق نہ دینا، میاں بیوی کے درمیان تھوڑی تھوڑی بات کی وجہ سے لڑکے کے Medical issue تھے۔ ولیمے کے دوسرے ہی دن سے ہاتھ اُٹھانا،  لڑکی نے تین سال تک اپنے ماں باپ کے گھر کچھ نہیں بتایا،  جب بات حد سے بڑھ گئی اور تشدد حد سے بڑھ گیا تو لڑکی نے دل برداشتہ ہو کر اپنے بڑے بھائی کو بتایا اس پر لڑکی کی ماں اور بھائی لڑکے کے گھر جا کر پیار اور محبت سے بات کو سلجھا کر آگئے، تاکہ گھر کی بات گھر میں رہے، لڑکے کے ماں باپ کے علم  میں یہ بات پہلے سے تھی کہ لڑکا جذبات میں آکر توڑ پھوڑ اور غصہ کرنا اور Medical issue یہ سب باتیں لڑکے کے ماں باپ کے علم میں پہلے سے تھیں اور یہ باتیں انہوں نے ہم سے چھپائیں، لڑکی کو جان بوجھ کر جسمانی زخم دینا، تشدد کرنا اور سردی میں راتوں کو A.C  فل چلا کر پنکھا چلا کر بنا کمبل کے رکھنا، ساری رات سونے نہ دینا، گندی زبان استعمال کرنا، گالی گلوج کرنا، عبادت نہ کرنے دینا یعنی ظلم کی حد کردی تھی اور ایک رات لڑکے نے مارپیٹ اور غصے میں لڑکی کو ایک طلاق دے دی، جس کے بعد لڑکی اپنے گھر آگئی، معاملات چلتے رہے، جس پر لڑکے اور لڑکی کے گھر کے بڑوں نے دونوں کو سمجھایا اور لڑکے نے رجوع کرلیا اور لڑکی کو بھی واپس اپنے سسرال بھیج دیا، ابھی لڑکی کو اپنے سسرال گئے، 10 دن نہیں ہوئے تھے کہ ان 10 دنوں میں لڑکے نے لڑکی کو ٹارچر ،دھمکیاں، مار پیٹ اور اتنا خوفزدہ کیا کہ جس کی کوئی حد نہیں تو لڑکی خوف کے مارے واپس اپنے والدین کے گھر واپس آگئی اور معاملات ایک بعد پھر بگڑ گئے اور کچھ ٹائم بعد لڑکے نے سامان واپس بھیج دیا اور طلاق کا نوٹس بھی ساتھ بھیج دیا  اور سامان میں لڑکی کے کپڑے وغیرہ تھے، جس پر ہم نے عالم سے پوجھ کر لڑکی کو عدت میں بیٹھا دیا۔

اب جو دو تولہ سونا حق مہر کا اور 8 تولہ سونا بخشش کا تھا، وہ کچھ ٹائم پہلے لڑکی کے سسراور ساس نے یہ کہہ کرواپس لے لیا تھا کہ ان کو کوئی جگہ خریدنی ہے، جس میں انھوں نے قرض کی صورت میں لڑکی سے 10 تولہ یہ کہہ کر سونا لیا کہ آپ کو واپس کر دیں گے اور اس کا اقرار کئی بار وہ کر چکے تھے، مگر جب طلاق ہوگئی اور سامان آیا،  وہاں اس میں وہ 10 تولہ سونا موجود نہیں تھا،  جب ہم نے اس 10 تولہ سونا کا ذکر کیا تو وہ دینے سے انکار کر گئے ہیں، جس پر وہ سب گواہان موجودہیں، جس پر انھوں نے سب کے سامنے ذکر کیا تھا کہ اس پر صرف لڑکی کا حق ہے اور ہم نے جب شادی کی تھی اس وقت قرض لےکر کی تھی، جس میں سے ابھی کچھ قرض ادا کرنا باقی ہے ۔اب آپ ان ساری باتوں کا جائزہ لیں اور شریعت کے حساب سے جو بھی فتوی ہے وہ جاری کریں، تا کہ لڑکی کو اس کا حق مل سکے۔لڑکی ابھی عدت میں ہے۔

وضاحت: سائل نے یہ بتایا کہ ہمارے علاقے میں بخشش یعنی عطیہ پر دینے کا یہ مطلب سمجھا جاتا ہے کہ یہ سونا لڑکی کی ملکیت ہو گا، جس کو لڑکی طلاق یا خاوند کی وفات کی صورت میں استعمال کرسکتی ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کی گئی صورتِ حال کے مطابق اگر واقعتاً بخشش پر دیا گیا سونا لڑکی کو ملکیت کے طور پر دیا گیا تھا تو اس صورت میں وہ سونا شرعی اعتبار سے لڑکی کی ملکیت تھا، جس کو واپس لینے کا سسرال والوں کو حق نہیں تھا، اور اب جب سسرال والوں نے وہ سونا لڑکی سے قرض کے طور پر لیا تھا، جس کا انہوں نے خود بھی اقرار کیا ہے، جیسا کہ سوال میں مذکور ہے،  تو سسرال والوں پر لازم ہے کہ وہ جلد از جلد سونا لڑکی کو واپس کریں، یہ لڑکی کا شرعی حق ہے، جس کی ادائیگی ان پر لازم ہے اور ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں لڑکے والے سخت گناہ گار ہوں گے اور دنیا میں ادائیگی نہ کرنے پر آخرت میں دردناک عذاب کی صورت میں پکڑ بھی ہو سکتی ہے، لہذا لڑکے والوں کا قرض لیے گئے سونے کا انکار کرنا اور اس کی ادائیگی میں ٹال مٹول سے کام لینا ہرگز جائز نہیں۔ 

حوالہ جات
۔۔۔

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

27/جمادی الاولیٰ 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے