021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بچوں کو ملنے والے تحائف کاحکم
82150ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

اگر کسی کے بچے کو کسی نے بطورہدیہ پیسے یا کوئی اور چیز دی توکیا یہ پیسے بچے کی ملکیت میں آتے ہیں یا والدین کی ملکیت میں ؟اور بچے کی اجازت کے بغیر والدین یہ پیسے خرچ کرسکتے ہیں یا نہیں ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بچوں کو ان کے بچپن میں جو رقم یا  تحفے تحائف دیے جاتے ہیں، ان کی مختلف صورتیں ہیں:

1۔ اگر ہدیہ دینے والے صراحت کردیں کہ یہ بچے کے لیے یا اس کی والدہ یا والد کے لیے ہے تو جس کی صراحت کریں گے وہی اس کا مالک ہوگا۔

 2۔اگر وہ ایسی چیزیں ہیں  جو بچوں کے استعمال کی ہیں  یا  ان کی ضرورت کے موافق ہیں تو ایسی چیزیں ان بچوں ہی کی ملکیت ہوں گی،  والدین کے لیے ان چیزوں میں تصرف  کرنا یا وہ چیزیں کسی اور کو دینا جائز نہیں ہوگا۔

3۔  اس کے علاوہ اگر کوئی اور چیزیں ہوں  تو اس میں عرف ورواج کا اعتبار ہوگا، اگر عرف یہ ہے کہ  یہ تحفے تحائف ماں باپ کو دینا مقصودہوتے ہیں، صرف  ظاہراً  بچوں کے ہاتھ میں دیے جاتے ہوں، جیسا کہ عام طورپر عقیقہ وغیرہ کی تقریب میں ہوتا ہے تو ان چیزوں کے مالک والدین ہی ہوں گے، وہ اس میں جو چاہیں تصرف کرسکیں گے، پھر اس میں یہ تفصیل ہے کہ  اگر وہ چیزیں  والدہ کے رشتہ داروں نے دی ہیں تو والدہ ان کی مالک ہے، اور اگروالد کے رشتہ داروں نے دی ہیں تو  اس کا مالک والد ہے۔

4۔اگر عرف یہ ہے کہ اس طرح کی تقریبات میں وہ چیزیں بچے ہی کو دی جاتی ہیں  تو پھر اس کا مالک بچہ ہی ہوگا۔

5۔ عیدی کی جو تھوڑی بہت  رقم  بچوں کو دی جاتی ہے وہ  بچوں کی ملکیت شمار ہوگی۔

جن صورتوں میں بچہ اس رقم کا مالک ہو والدین کے لیے اس رقم کو اپنے ذاتی کاموں میں استعمال کرنا جائز نہیں ہوگا، بلکہ وہ رقم بچوں ہی ضرورت میں خرچ کرنا ضروری ہوگا۔

حوالہ جات
الفقہ الاسلامی و ادلتہ: (3261/4، ط: دار الفکر):
«تنعقد الهبة بالإيجاب والقبول وتتم بالقبض». وذكر الفقهاء أن الولي ينوب مناب القاصر في
القبض، فلو وهب أحد الأولياء للصغير شيئا، والمال في أيديهم صحت الهبة، ويصيرون قابضين للصغير۔
الجوھرۃ النیرۃ: (285/1):
تصرف الإنسان في مال غيره لا يجوز إلا بإذن أو ولاية.
بدائع الصنائع: (127/6):
أما أصل الحكم فهو ثبوت الملك للموهوب له في الموهوب من غير عوض لأن الهبة تمليك العين من غير عوض فكان حكمها ملك الموهوب من غير عوض.

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

30/جمادی الاولی1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے