021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
وکیل کا موکل کے لیے پلاٹ خریدنے کے بعد انکار کرنا
82180وکیل بنانے کے احکاممتفرّق مسائل

سوال

ہم سب بھائیوں نے اپنے ماموں کو چودہ لاکھ روپے پلاٹ خریدنے کے لیے دیے، اس نے پلاٹ خریدا اور خریدنے کے بعد ہمیں اس پلاٹ کے پاس لے گیا اور کہا یہ پلاٹ میں نے خریدا ہے اور اس میں نو لاکھ روپیہ میری بیٹی کا شامل ہے، لہذا یہ پلاٹ اب آپ حضرات  اور میری بیٹی کے درمیان مشترک ہو گا۔ ہم اس پر راضی ہو گئے، اگرچہ اس سے پہلے ہم نے مشترکہ خریدنے کا نہیں کہا تھا۔پھر ماموں نے وہ پلاٹ ہمیں بتائے بغیر اپنے اور اپنی بیٹی کے نام کروا دیا۔

اس کے بعد ماموں نے اس پلاٹ پر بنگلہ تعمیر کر کے کرایہ پر دیا، اب جب ہم نے مطالبہ کیا کہ اس پلاٹ میں سے ہمارا حصہ دو تو اس نے کہا میں اور نیک بادشاہ  نے یہ پلاٹ بیچ کر دوسرا پلاٹ گوٹھ میں لیا تھا وہ تمہارا پلاٹ ہے، جبکہ یہ بات بالکل غلط ہے، کیونکہ میں اس پر حلفیہ بیان دیتا ہوں کہ میں نے انفرادی طورپریا ماموں کے ساتھ مل کر کسی بھی صورت میں یہ پلاٹ نہیں بیچا، اس پر واضح قرینہ یہ ہے کہ یہ پلاٹ ابھی تک ماموں اور اس کے بیٹے کے نام پر موجود ہے، جس کا اقرار اس کے بیٹے نے بھی کیا ہے،  پلاٹ نہ بیچنے کا ایک قرینہ یہ بھی ہے کہ ماموں کہہ رہا ہے کہ  اگراسی پلاٹ میں سے حصہ لینا ہے تو میری بیٹی سے لے لو، جبکہ اس کی بیٹی پندرہ سال سے  انگلینڈ میں ہے اور اس پلاٹ پر قبضہ ماموں کا ہی ہے اور اسی نے یہ بنگلہ کرایہ پر دیا ہے۔

ہم نے اپنایہ مسئلہ پنچائت میں رکھا، ماموں نے پنچائت کے سامنے اصل پلاٹ کا انکارکیا تو پنچائت نے کہا کہ آپ کسی معتبر دارالافتاء سے فتوی لے آئیں تو ہم فیصلہ کر دیں گے، اس لیے آپ حضرات سے رجوع کیا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کی گئی تفصیل اگر  درست ہےاورواقعتاً آپ کے ماموں نے اپنی بیٹی اور آپ کے پیسوں کو ملا کر مشترکہ پلاٹ خریدا اور پھر آپ حضرات نے اس پر رضامندی کا اظہار بھی کر دیا تھا تو یہ پلاٹ آپ حضرات اور آپ کے ماموں کی بیٹی کے درمیان مشترک ہو  گیا تھا  اور پھر آپ کے ماموں کی ذمہ داری تھی کہ وہ پلاٹ آپ حضرات اور اپنی بیٹی کے نام کرواتا، اس کا یہ پلاٹ اپنے نام کروانا سراسر ظلم اور زیادتی ہے، اس کے بعد اس نے اپنے پیسوں سے عمارت تعمیر کر کے اس کو کرایہ پر دے کر جو کرایہ حاصل کیا ہے وہ بھی آپ دونوں فریقوں کے درمیان مشترک تھا اور حاصل شدہ کرایہ میں آپ زمین میں سے اپنے شرعی حصہ کے مطابق کرایہ کے حق دار تھے اور اس حق کا آپ اب بھی اس سے مطالبہ کر سکتے ہیں۔

اب آپ کے ماموں کا اس پلاٹ میں سے آپ کا شرعی حصہ دینے سے سرے سے انکار کرنا اور غلط بیانی کا ارتکاب کرتے ہوئے یہ کہنا کہ یہ پلاٹ میں نے آگے بیچ دیا یا میں نے  یہ اپنے لیے خریدا تھا،  ہرگز جائز نہیں، جبکہ سوال میں ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق وہ پلاٹ ابھی تک اس کے اور اس کی بیٹی کے نام پر موجود ہے اور اس کا بیٹا بھی اس بات کا اقرار کر چکا ہے کہ وہ پلاٹ انہوں نے ابھی تک بیچا نہیں ہے۔ لہذا شرعی نقطہٴ نظر سے آپ کے ماموں پر لازم ہے کہ وہ اس پلاٹ میں سے آپ کا شرعی حصہ آپ کے حوالے کرے، ورنہ وہ سخت گناہ گار اور گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہو گا، احادیثِ مبارکہ میں کسی کی زمین غصب کرنے پر سخت وعیدیں آئی ہیں، چنانچہ ایک حدیثِ پاک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، جس کا ترجمہ یہ ہے کہ:

"جس شخص نے کسی کی ایک بالشت زمین پر ناحق قبضہ کیا تو قیامت کے درمیان سات زمینوں تک اس کا طوق بنا کر اس کے گلے میں ڈالا جائے گا۔"

حوالہ جات
صحيح البخاري (4/ 107، الرقم: 3198) دار طوق النجاة:
حدثني عبيد بن إسماعيل، حدثنا أبو أسامة، عن هشام، عن أبيه، عن سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل، أنه خاصمته أروى في حق زعمت أنه انتقصه لها إلى مروان، فقال سعيد: أنا أنتقص من حقها شيئا أشهد لسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «من أخذ شبرا من الأرض ظلما، فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين»
الهداية في شرح بداية المبتدي (4/ 297) دار احياء التراث العربي – بيروت:
"وإذا غصب عقارا فهلك في يده لم يضمنه" وهذا عند أبي حنيفة وأبي يوسف. وقال محمد: يضمنه، وهو قول أبي يوسف الأول، وبه قال الشافعي لتحقق إثبات اليد، ومن ضرورته زوال يد المالك لاستحالة اجتماع اليدين على محل واحد في حالة واحدة فيتحقق الوصفان وهو الغصب على ما بيناه فصار كالمنقول وجحود الوديعة. ولهما أن الغصب إثبات اليد بإزالة يد المالك بفعل في العين، وهذا لا يتصور في العقار؛ لأن يد المالك لا تزول إلا بإخراجه عنها، وهو فعل فيه لا في العقار فصار كما إذا بعد المالك عن المواشي. وفي المنقول: النقل فعل فيه وهو الغصب. ومسألة الجحود ممنوعة، ولو سلم فالضمان هناك بترك الحفظ الملتزم وبالجحود تارك لذلك.
رد المحتار/ باب الوکالة بالبيع والشراء، فصل لا يعقد وکيل البيع والشراء: 8/ 257، زکريا:
الوکيل بالبيع لا يملک شراءه لنفسه؛ لأن الواحد لا يکون مشتريًا وبائعًا، فيبيعه من غيرہ ثم يشتريه منه، وإن أمرہ المؤکل أن يبيعه من نفسه وولدہ الصغير، أو ممن لا تقبل شهادته فباع منهم جاز.
مجمع الأنهر في شرح ملتقی الأبحر / باب الوکالة بالبيع والشراء: 2/ 231، 232 دار إحياء التراث العربي بيروت:
وليس للوکيل بشراء عين شراؤه لنفسه ولا لمؤکل آخر؛ لأنه يؤدي إلی تغرير الآمر من حيث أنه اعتمد عليه …………. وفي غير المعين هو أي الشراء للوكيل يعني لو اشترى الوكيل بشراء شيء غير معين شيئاً يكون الشراء للوكيل إذ الأصل أن يعمل لنفسه إلا إن أضاف العقد إلى مال المؤكل بأن قال: اشتريت بهذا الألف وهو مال الآمر أو أطلق العقد بأن قال: اشتريت فقط، ونوى الشراء له.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراتشی

29/جمادی الاولیٰ 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے