021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مجبوری کی صورت میں ہبۃ المشغول کا حکم (جدید) اور میراث کی تقسیم
82212میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

ہمارے والد صاحب کا انتقال مئی 2004ء کو ہوا۔ والدہ 2009ء میں اللہ کو پیاری ہوگئی۔ ہم تین بہن بھائی ہیں، ایک میں اور دو میری بہنیں، زینب اور سعیدہ۔ والد صاحب نے ترکہ میں ایک مکان چھوڑا ہے، مکان کی پوزیشن یہ ہے کہ پہلی منزل پر دو پورشن ہیں، پہلا پورشن دو کمرے والا ہے، باتھ روم اور کچن بھی اس میں ہیں، صحن نہیں ہے۔ دوسرا پورشن تین کمرے والا ہے، صحن، گیلری، کچن اور  باتھ روم بھی بنے ہوئے ہیں۔ گراؤنڈ فلور پر پانچ دکانیں اور ایک رہائشی مکان ہے جس میں تین کمرے، چھوٹا صحن اور باتھ روم واقع ہیں۔ اس پورے مکان کا ایک نمبر ہے اور چونکہ لیز شدہ زمین ہے، اس لیے یہ بکے گا تو ایک ساتھ ہی بکے گا، ایک ایک پورشن الگ الگ نہیں بک سکتا۔   

والد صاحب نے اپنی حیات میں پہلی منزل کا دو کمرے والا پورشن میری بہن زینب کے حوالے کیا کہ تم یہاں رہو، اس کا شوہر کام کاج نہیں کرتا تھا۔ گراؤنڈ فلور کا رہائشی مکان میری بہن سعیدہ کو دیدیا تھا، چونکہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ الگ رہتی تھی، اس لیے اس نے یہ مکان کرایہ پر دیا تھا جس کا کرایہ 2014ء تک وہ لیتی رہی، اس کے بعد وہ خود اس میں ٹیوشن سنٹر چلانے لگی۔ پہلی منزل پر واقع تین کمرے والا پورشن جس میں میں اور میرے والدین رہتے تھے، والد صاحب نے مجھے دیا اور کہا یہ تمہارا ہے، اب تم جانو اور تمہارا کام جانے۔ والد صاحب نے ان دو بہنوں کو یہ الگ الگ پورشن دینے کے بعد کئی دفعہ کہا کہ ان کو میں حصہ دے چکا ہوں، اب میں آزاد ہوں۔

گراؤنڈ فلور پر پانچ دکانوں میں سے ایک دکان میں میرا ہومیو پیتھی کلینک قائم تھا اور چار دکانیں کرایہ پر تھیں، ان کا کرایہ والدہ کے پاس آتا تھا، میں بھی اپنی تنخواہ والدہ کو دیتا تھا۔ چونکہ یہ پورا مکان والد صاحب کے نام پر تھا، اس لیے دکانوں کا ایگریمنٹ والد صاحب کے نام پر ہی بنتا تھا۔ والد صاحب نے زندگی میں دکانوں کا کرایہ دونوں بہنوں میں سے کسی کو نہیں دیا، میری بہن زینب کا شوہر کام کاج نہیں کرتا تھا، اس نے ایک دفعہ ایک دکان مانگی تھی، لیکن والد صاحب راضی نہیں ہوئے اور کہا کہ دکانیں عبد الکریم سنبھالے گا، وہ اکثر مجھ سے کہتے تھے کہ یہ مکان اپنے نام کرالو، ورنہ میری زندگی کے بعد تمہیں پریشانی ہوگی، میں چونکہ آفس کے کاموں میں پھنسا ہوتا تھا، اس لیے اپنے نام نہ کرا سکا۔ البتہ دکانوں کے بارے میں مجھے صراحتا یہ نہیں کہا کہ دکانیں آپ کی ہیں۔  

والد صاحب اپنی پنشن کی رقم عموما دونوں بہنوں میں بانٹ دیتے تھے۔  والد صاحب کے انتقال کے بعد کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں رہا، نہ بہنوں نے کرایہ کے بارے میں پوچھا، لیکن کچھ عرصہ قبل انہوں نے کہا کہ دکانوں کے کرایہ میں ہمیں بھی حصہ دیں۔ میں نے کہا ایسا صحیح نہیں ہوگا، یہ پورا مکان بیچ دیتے ہیں، شرعی حصہ لے لینا۔ جواب آیا کہ والدین کی نشانی ہے، نہیں بیچنا۔ میں نے بہت زور دیا کہ دوسری جگہ تمہیں اچھا مکان مل جائے گا، لیکن نہیں مانیں۔  2020ء میں میرے حصے کی چھت بارش کی وجہ سے گر گئی۔ پھر زینب کے پورشن کی چھت کا ایک حصہ گر گیا۔  

کچھ عرصہ کرونا کی وجہ سے جو حالات پیدا ہوئے تو میں فی مہینہ ان کو آٹھ، آٹھ ہزار روپے دیتا رہا، لیکن میں نے ان کو یہ باور کرایا کہ مکان بک جائے تو صحیح شرعی حصہ ملے گا، تاہم انہوں نے مکان بیچنے سے کافی عرصے تک انکار کیا کہ یہ والدین کی نشانی ہے، ہم بیچنے نہیں دیں گے۔ مکان کی چھت گرنی شروع ہوگئی تو کہہ رہی ہیں کہ جلدی بیچ دو۔ اب سوال یہ ہے کہ:-   

(1)۔۔۔  جب والد نے زندگی میں سب کو حصہ دیدیا تھا اور 2005ء سے سب باقاعدہ فائدہ بھی اٹھارہے ہیں تو اب جب یہ پورا مکان فروخت ہوگا تو اس کا شرعی حصہ دیا جائے گا یا 2005ء سے 2023ء تک مکان سے جو آمدنی ہوتی وہ تقسیم کی جائے گی یا  مکان کی ملنے والی قیمت + آمدنی تقسیم کی جائے گی؟   

(2)۔۔۔ جب والد صاحب نے بہنوں کو حصہ دیدیا تھا تو کیا ان پانچ دکانوں میں بہنوں کا حصہ بنتا ہے؟ اگر بنتا ہے تو چار دکانوں کا جو کرایہ والد صاحب کے انتقال کے بعد میں لیتا رہا ہوں، اس میں ان کا حصہ ہوگا یا نہیں؟ اور جس دکان میں میرا ہو میو پیتھی کلینک قائم ہے، اس کا کوئی کرایہ میرے اوپر لازم ہوگا؟

(3)۔۔۔ اگر دکانوں اور ان کے کرایہ میں بہنوں کا حصہ بنتا ہے تو وہ فوری طور پر ایک ساتھ دینا ہوگا یا قسطوں میں دے سکتا ہوں؟ ایک ساتھ دینا میرے لیے مشکل ہے، جبکہ تقسیم میں تاخیر بھی بہنوں کی وجہ سے ہوئی ہے، میں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ پورا مکان بیچ کر شریعت کے مطابق تقسیم کرلیتے ہیں۔  

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق آپ کے سوالات کے جوابات درجِ ذیل ہیں:-

(1)۔۔۔ آپ کے والد صاحب نے آپ کی دونوں بہنوں کو جو رہائشی پورشن دئیے تھے وہ ان کی ملکیت  بن گئے تھے، اب وہ میراث کے طور پر تقسیم نہیں ہوں گے، لہٰذا جب یہ مکان بکے گا تو اس میں ہر پورشن کی جتنی قیمت بنے گی وہ صرف اس کی مالکہ بہن کو ہی ملے گی۔ جہاں تک اس پورشن کا تعلق ہے جو والد صاحب نے آپ کو دیا ہے تو فقہ حنفی کے اصل مفتیٰ بہ قول کے مطابق اس کا ہبہ مکمل نہیں ہونا چاہیے؛ کیونکہ ایسا مکان جس میں انسان خود رہتا ہو، اس کا ہبہ اس وقت مکمل ہوتا ہے جب وہ اس سے اپنا سامان نکال کر اور اس کو خالی کر کے اس شخص کو مکمل قبضہ دے جس کو ہبہ کرنا مقصود ہو یا پھر کم از کم اس سے یہ کہے کہ اس گھر میں موجود میرا سامان آپ کے پاس بطورِ امانت ہے اور میں آپ کی اجازت سے اس میں رہوں گا۔ صورتِ مسئولہ میں چونکہ والد صاحب نے ایسا کچھ نہ کیا اور نہ کہا، اس لیے یہ ہبہ مکمل نہیں ہونا چاہیے اور یہ پورشن میراث میں تقسیم ہونا چاہیے۔ لیکن دوسری طرف والد صاحب کا مقصد تینوں بچوں کو اپنی زندگی میں رہنے کے لیے الگ الگ جگہ دینا تھا، بیٹیوں کو عملا الگ الگ پورشن دئیے بھی، لیکن بیٹے کے ساتھ رہنے کی وجہ سے اس کو زبانی بتایا اور عملا پورشن خالی نہیں کیا؛ اس لیے والد صاحب کا صراحۃً یہ کہنا کہ "یہ پورشن عبد الکریم کا ہے" اور اس کے بعد آخر تک اس کے خلاف کسی قسم کا کوئی اقدام نہ کرنا قبضہ مکمل ہونے کے لیے کافی ہونا چاہیے۔ اس طرح صرف زبانی طور پر ہبہ کرنے سے قبضہ مکمل ہونے کے دو نظائر ہمیں فقہ حنفی میں ملتے ہیں: ایک والد کا اپنے نابالغ بیٹے کو ایسا مکان یا جگہ ہبہ کرنا جو اس کے ساز و سامان کے ساتھ مشغول ہو، جبکہ دوسرا بیوی کا شوہر کو ایسا مکان ہبہ کرنا۔ پہلی صورت میں ہبہ کو اس لیے مکمل مانا گیا ہے کہ نابالغ بچے پر ولایت کی وجہ سے باپ کا قبضہ بچے کا قبضہ شمار ہوتا ہے، جبکہ دوسری صورت میں بیوی کا شوہر کے عیال میں داخل ہونے اور تابع ہونے کی وجہ سے مکان کسی اور کے ساز و سامان کے ساتھ مشغول نہیں سمجھا جاتا اور اس کو قبضہ سے مانع شمار نہیں کیا جاتا۔ صورتِ مسئولہ میں بھی چونکہ سائل کے والد صاحب کا کوئی اور بیٹا نہیں تھا، اس لیے وہ عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے ایک اعتبار سے اپنے بیٹے کے عیال میں داخل تھا، لہٰذا اس مجبوری کی صورت میں والد صاحب اور اس کے ساز و سامان کا اس گھر میں موجود ہونا ہبہ مکمل ہونے سے مانع نہیں ہونا چاہیے۔ اگر بالفرض فقہ حنفی کے مطابق اس ہبہ کو مکمل نہ مانا جائے تو بعض دیگر ائمہ کے نزدیک ہبہ قبضہ کے بغیر بھی مکمل ہوجاتا ہے، بالخصوص کیلی اور وزنی اشیاء کے علاوہ دیگر اشیاء میں؛ اس لیے ایسی مجبوری کی صورت میں ان حضرات کے قول پر عمل کرنے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے۔ لہٰذا والد صاحب کے زبانی ہبہ کے بعد یہ پورشن آپ کا ہوگیا تھا۔ اب جب جب یہ مکان بکے گا تو آپ کے پورشن کی جتنی قیمت بنے گی وہ صرف آپ کے کو ملے گی، بطورِ میراث تقسیم نہیں ہوگی۔

                                                                                                                                                (ملاحظہ فرمائیں عبارت نمبر 3 تا 10) 

(2)۔۔۔ یہ پانچوں دکانیں آپ کے والد صاحب کی میراث میں شامل ہیں جس میں آپ کو اور آپ کی دونوں بہنوں کو اپنا اپنا شرعی حق ملے گا، لہٰذا یہ دکانیں جس قیمت میں بکیں گی، اس کو کل چار حصوں پر تقسیم کر کے دو حصے آپ کو اور ایک، ایک حصہ ہر ایک بہن کو ملے گا۔ جو چار دکانیں کرایہ پر دی ہوئی ہیں، والد صاحب کے انتقال کے بعد ان کا جتنا کرایہ آپ نے لیا ہے، اس میں بھی بہنوں کا حصہ بنتا ہے جو ان کو دینا ضروری ہے۔ البتہ جو دکان آپ کے استعمال میں تھی، اس میں بہنوں کے حصوں کا کرایہ قضاءً آپ پر لازم نہیں، لیکن اگر وہ معاف نہ کریں تو دیانتاً آپ کو چاہیے کہ اس میں بھی ان کے حصوں کا کرایہ ان کو دیدیں۔ آپ نے چند سال میں دونوں بہنوں کو جتنی جتنی رقم دی ہے وہ ان کے حصوں سے منہا کر سکتے ہیں۔

                                                                                                                                                  (عبارت نمبر 11 تا 13)  

(3)۔۔۔ بہنوں کے حصوں کی ادائیگی کے لیے آپ ان کی رضامندی سے مناسب ترتیب طے کر سکتے ہیں کہ جس میں نہ تو ان کے حق کی ادائیگی میں غیر معمولی تاخیر ہو اور نہ آپ کو ناقابلِ برداشت تنگی کا سامنا ہو، آپ کو چاہیے کہ ان کا حق جلد از جلد ادا کرنے کی فکر کریں اور ان کو چاہیے کہ آپ کو ادائیگی کے لیے مناسب وقت دیں۔

                                                                                                                                                   (عبارت نمبر 1 اور 2)

حوالہ جات
(1)القرآن الکریم:
 {وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ } [البقرة: 280].
(2) صحيح البخاري (3/ 94):
عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: مطل الغني ظلم، فإذا أتبع أحدكم على ملي فليتبع.
(3) فقه البیوع (1/399):
174- القبض فی الدار التی یسکنها البائع:
ثم اشترط الفقهاء لصحة تسلیم الدار أن تکون خالیة من أمتعة البائع. فإن کانت مشغولةً بها لایتحقق القبض حتی یفرغها. ولکن جاء فی الفتاوی الهندیة عن فتاوی أبی اللیث " فإن أذن البائع للمشتری بقبض الدار والمتاع، صح التسلیم؛ لأن المتاع صار ودیعةً عند المشتری". وکذلك ذکروا حیلةً فی نفاذ هبة ما هو مشغول بمتاع البائع (الظاهر أنه "الواهب") فقالوا: وحیلة هبة المشغول أن یودع الشاغل أولاً عند الموهوب له، ثم یسلمه الدارمثلاً، فتصح لشغلها بمتاع فی یده.
ویمکن أن یخرج علی ذلك ما یقع کثیراً من أن الأب یهب داراً لابنه، وهو ساکن معه فیها بمتاعه. فلو أذن الأب ابنه بقبض متاعه ودیعةً، وسجل الدار باسم ابنه بعد الهبة، وصرح بأن کونه یسکن الدار بعد ذلك موقوف علی إذن الإبن علی سبیل العاریة، وقبل ذلك الابن، ینبغی أن یعتبر قبضاً کافیاً لتمام الهبة، والله سبحانه أعلم.
(4) بدائع الصنائع (5/ 244):
وأما تفسير التسليم والقبض فالتسليم والقبض عندنا هو التخلية والتخلي، وهو أن يخلي البايع بين المبيع وبين المشتري برفع الحائل بينهما على وجه يتمكن المشتري من التصرف فيه فيجعل البايع مسلما للمبيع والمشتري قابضا له…. لنا أن التسليم في اللغة عبارة عن جعله سالما خالصا، يقال سلم فلان لفلان أي خلص له، وقال الله تعالى { ورجلا سلما لرجل } أي سالما خالصا لا يشركه فيه أحد، فتسليم المبيع إلى المشتري هو جعل المبيع سالما للمشتري أي خالصا بحيث لا ينازعه فيه غيره، وهذا يحصل بالتخلية، فكانت التخلية تسليما من البائع والتخلي قبضا من المشتري.
(5) المجلة (ص: 54):
 مادة 263: تسليم المبيع يحصل بالتخلية، وهو أن يأذن البائع للمشتری بقبض المبیع مع عدم وجود مانع من تسلم المشتری إیاه.
مادة 265: تختلف كيفية التسليم باختلاف المبيع.
مادة 270: العقار  الذي له باب وقفل كالدار والكرم، إذا وجد المشتري  داخله وقال له البائع  "سلمته إليك" كان قوله ذلك تسليما، وإذا كان المشتري خارج ذلك العقار فإن كان قريبا منه بحيث يقدر على إغلاق بابه وقفله في الحال يكون قول البائع للمشتري "سلمتك إياه" تسلیما أیضا، وإن لم يكن منه قريبا بهذه المرتبة، فإذا مضى وقت يمكن فيه ذهاب المشتري إلى ذلك العقار و دخوله فیه یکون تسلیما.
مادة 271: إعطاء مفتاح العقار الذي له قفل للمشتري يكون تسليما.
(6) شرح المجلة للعلامة خالد الأتاسی (2/192):
المادة 263: تسلیم المبیع یحصل بالتخلیة: …… و هو أن یأذن البایع للمشتری بقبض المبیع مع عدم وجود مانع من تسلم المشتری إیاه، یعنی أن التخلیة بین المشتری و المبیع تقوم مقام القبض
الحقیقی إذا کانت علی وجه یتمکن فیها المشتری من القبض بعد أن یکون أذن له البایع بقبضه........الخ
المادة 265: تختلف كيفية التسليم باختلاف المبيع.  قال فی رد المحتار: و الحاصل أن التخلیة قبض حکما لو مع القدرة علیه بلا کلفة، لکن ذلك یختلف بحسب حال المبیع، ففی نحو حنطة فی بیت مثلا دفع المفتاح إذا أمکنه الفتح بلا کلفة قبض، و فی نحو دار فالقدرة علی إغلاقها قبض، أی بأن تکون فی البلد فیما یظهر.
المادة 270: العقار  الذي له باب وقفل كالدار والكرم إذا وجد المشتري  داخله، أی لا علی وجه السکنی فی الدار، و إلا کان قابضا بنفس العقد و لا یحتاج فی ذلك إلی تخلیة البائع بقوله "سلمته إلیك" و نحوه…… الخ
(7) الدر المختار (5/ 691):
وفي الأشباه: هبة المشغول لا تجوز، إلا إذا وهب الأب لطفله.
قلت: وكذا الدار المعارة والتي وهبتها لزوجها على المذهب؛ لأن المرأة ومتاعها في يد الزوج، فصح التسليم، وقد غيرت بيت الوهبانية، فقلت:
          ومن وهبت للزوج دارا   لها بها          متاع وهم فيها تصح المحرر.
وفي الجوهرة: وحيلة هبة المشغول أن يودع الشاغل أولا عند الموهوب له، ثم يسلمه الدار مثلاً، فتصح لشغلها بمتاع في يده.
(8) تکملة رد المحتار (8/ 438):
 قوله ( وفي الأشباه هبة المشغول لا تجوز الخ ) قال الحموي: وذلك كما لو كان لرجل دار وفيها أمتعة فوهبها من رجل لا يجوز؛ لأن الموهوب مشغول بما ليس بموهوب، فلا يصح التسليم. فرق بين هذا وبين ما إذا وهبت المرأة دارها من زوجها وهي ساكنة فيها ولها أمتعة فيها والزوج ساكن معها حيث يصح، والفرق أنها وما في يدها في الدار في يده، فكانت الدار مشغولة بعياله، وهذا لا يمنع صحة قبضه ،كذا في الولوالجية انتهى.
وقد أوضح المقام في هذه المسألة سيدي الوالد رحمه الله تعالى في تنقيحه، فراجعه إن شئت.
(9) بداية المجتهد (2/ 329):
وأما الشروط فأشهرها القبض، أعني أن العلماء اختلفوا هل القبض شرط في صحة العقد أم لا؟ فاتفق الثوري والشافعي وأبو حنيفة أن من شرط صحة الهبة القبض وأنه إذا لم يقبض لم يلزم الواهب، وقال مالك: ينعقد بالقبول ويجبر على القبض كالبيع سواء، فإن تأنى الموهوب له عن طلب القبض حتى أفلس الواهب أو مرض بطلت الهبة، وله إذا باع تفصيل: إن علم فتوانى لم يكن له إلا الثمن، وإن قام في الفور كان له الموهوب. فمالك القبض عنده في الهبة من شروط التمام لا من شروط الصحة، وهو عند الشافعي وأبي حنيفة من شروط الصحة.
وقال أحمد وأبو ثور تصح الهبة بالعقد وليس القبض من شروطها أصلا لا من شرط تمام ولا من شرط صحة، وهو قول أهل الظاهر. وقد روي عن أحمد بن حنبل أن القبض من شروطها في المكيل والموزون. فعمدة من لم يشترط القبض في الهبة تشبيهها بالبيع وأن الأصل في العقود أن لا قبض مشترط في صحتها حتى يقوم الدليل على اشتراط القبض. وعمدة من اشترط القبض أن ذلك مروي عن أبي بكر رضي الله عنه في حديث هبته لعائشة المتقدم، وهو نص في اشتراط القبض في صحة الهبة.
(10) المغني (6/ 273):
مسألة : قال : ولا تصح الهبة والصدقة فيما يكال أو يوزن إلا بقبضه………..  وإن وهبه شيئا في يد المتهب كوديعة أو مغصوب فظاهر كلام أحمد أن الهبة تلزم من غير قبض ولا مضي مدة يتأتى القبض فيها، فإنه قال في رواية ابن منصور : إذا وهب لامرأته شيئا ولم تقبضه فليس بينه وبينها خيار هي معه في البيت، فظاهر هذا أنه لم يعتبر قبضا ولا مضي مدة يتأتى فيها لكونها معه في البيت فيدها على ما فيه…………..مسألة : قال : ويصح في غير ذلك بغير قبض إذا قبل كما يصح في البيع،  يعني أن غير المكيل والموزون تلزم الهبة فيه بمجرد العقد ويثبت الملك في الموهوب قبل قبضه وروي ذلك عن علي وابن مسعود رضي الله عنهما أنهما قالا الهبة جائزة إذا كانت معلومة قبضت أو لم تقبض وهو قول مالك و أبي ثور، وعن أحمد رواية أخرى لا تلزم الهبة في الجميع إلا بالقبض، وهو قول أكثر أهل العلم، قال المروزي : اتفق أبو بكر وعمر وعثمان وعلي على أن الهبة لا تجوز إلا مقبوضة، ويروى ذلك عن النخعي و الثوري و الحسن بن صالح و العنبري و الشافعي وأصحاب الرأي؛ لما ذكرنا في المسألة الأولى. ووجه الرواية الأولى أن الهبة أحد نوعي التمليك، فكان منها ما لا يلزم قبل القبض، ومنها ما يلزم قبله كالبيع، فإن فيه ما لا يلزم قبل القبض وهو الصرف وبيع الربويات، ومنه ما يلزم قبله وهو ما عدا ذلك…… الخ
(11) المجلة (ص: 111):
مادة 597: لا يلزم ضمان المنفعة في مال استعمل بتأويل ملك ولو كان معدا للاستغلال، مثلا لو تصرف مدة أحد الشركاء في المال المشترك  بدون إذن شريكه مستقلا فليس للشريك الآخر أخذ أجرة  حصته؛ لأنه استعمله على أنه ملكه.
(12) شرح المجلة للعلامة الأتاسی (2/701):
لأن الدار المشترکة فی حق السکنی و ما کان من توابعها تجعل کالمملوکة لکل واحد من الشریکین علی سبیل الکمال؛ إذ لو لم تجعل کذلك منع کل واحد من الدخول والقعود و وضع الأمتعة، فتتعطل علیه منافع ملکه، وإنه لایجوز، وإذا جعلنا ها هکذا صار الحاضر ساکنا فی ملك نفسه، فکیف یجب علیه الأجر؟ (حموی عن العمادیة).
 (13) درر الحكام شرح مجلة الأحكام (1/ 588):
مسائل تتفرع عن ذلك:
 أولًا: مثلًا لو تصرف أحد الشركاء تغلبًا في المال المشترك كالدار والحانوت مدةً بدون إذن شريكه مستقلًا واستعمله بنفسه، فليس للشريك الآخر أخذ أجرة حصته؛ لأنه استعمله على أنه ملكه، كما أنه ليس له أن يطالب بسكنى الدار وحده بقدر ما سكنها شريكه، انظر المادة ( 1083 )، حتى أن الساكن إذا دفع إلى شريكه أجرة حصته يزعم أنها تلزمه فله استردادها بعد ذلك، انظر المادة ( 97 ) ……… ويستفاد من المثال أن ذلك خاص باستعمال الشريك بالذات، ولا دخل لإيجاره من آخر؛ لأن الشريك إذا لم يستعمل المال المشترك مستقلًا بنفسه، وآجره كله من آخر وأخذ أجرته لزمه رد أجرة شريكه إليه . مثلًا لو آجر أحد الشركاء الحمام المشترك بين ثلاثة، ولكل منهم ثلثه، من آخر وأخذ أجرته لزمه أن يعطي لشريكيه ثلثي الأجرة ،وسنفصل هذه المسألة، وتوضح في المادة ( 1077 )، لكن إيجار أحد الشركاء المال المشترك على هذا الوجه أو إعارته غير جائزة ديانة؛ إذ التصرف في ملك الغير بلا إذن حرام ، ولا يمنع قضاء؛ إذ الإنسان لا يمنع من التصرف فيما بيده إذا لم ينازعه فيه أحد ( التنقيح، رد المحتار،  علي أفندي ) .

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

      02/جمادی الآخرۃ/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے