021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
وراثت کی رقم ذاتی سامان خریدنےمیں استعمال کرنا
82210میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

میرے ابو نے ایک بوہری سیٹھ سے فیکٹری بمع کل سامان کے کرایہ پر لے رکھی تھی،اڑھائی سال بعد 12نومبر 1981کو میرے ابو کا اسی فیکٹری میں انتقال  ہوا جس کی وجہ سےفیکٹری بند ہوکر واپس بوھری سیٹھ کے قبضہ واختیارمیں آگئی، اس کے کچھ ماہ بعد مارچ 1982میں یحی اقبال نے اپنی ذمہ پر بوہری سیٹھ کی آفر پر ایک نیا  زبانی معاہدہ بمع چند شرائط اور روزانہ کرایہ دینے کی بنیاد پر طے کیا،یحی اقبال اوراس کے چھوٹے بھائی ادریس کو فیکٹری  چلاتے ہوئے ابھی اڑھائی سال کا عرصہ ہی گزرا تھا کہ اچاند صبح صبح نعمان بلڈوزروالوں کی پوری ٹیم مزدوراورپولیس کے ساتھ روٹ پر موجودبہت دکانیں اورساتھ ہماری کرایہ والی فیکٹری توڑنے پہنچ گئی اور توڑکرفیکٹری اوردکانوں کو کباڑ میں تبدیل کردیا،اس صورتِ حال کی وجہ سے میرا اوربوہری سیٹھ کا زبانی معاہدہ بمع شرئط سب ختم ہوگیااوراسی دن کرایہ دینا بھی ہم نے بندکردیا،ہمارا روزگاربند ہونے کی وجہ سے ایک نئی پریشانی ہمارے لیے شروع ہوگئی،دوسرے دن خالد غلام بھائی کے ساتھ مل کربوہری سیٹھ کے گھر جاکرسارے حالات اورہمارے نقصان کا ذکرکیا،یہ سارا سامان وکباڑبوہری سیٹھ کی ملکیت تھا،بوہری سیٹھ کے پاس خود یہ پھیلاہوا سامان رکھنے کی کوئی جگہ نہ تھی،بوہری سیٹھ نے آفرکیاکہ یہ ساراسامان لےجاؤاوراس کی قیمت بھی خود ہی 67000طے کردی ،اوراسی وقت یعنی ابو کے انتقال کے اڑھائی سال بعد ابوکی رقم 17000روپے جو بوہری سیٹھ کے پاس رکھی ہوئی تھی اس کا انکشاف کیا،بوہری سیٹھ کی طے شدہ رقم 67000میں یہ ابو والی رقم 17000نفی کرنے کے بعد بقایا50000کامزید تقاضہ کیا ،یہ رقم ابھی دے سکتے ہو تو دے دو ورنہ جب بھی آپ کے پاس بندوبست ہوجائے تو ادا کرنا ورنہ معاف ہے، اورسامان ہمارے حوالے کردیا ،اسی وقت اتنی بڑی رقم کا بندوبست کرنا، باہر پڑےہوئے کباڑ کو کسی محفوظ جگہ پر رکھنااورفیکٹری کے لیے کمرشل جگہ کو حاصل کرنا سب فوراًناممکن تھا،بہرحال سارےسامان کا بغیر کسی ادائیگی کےسودا ہوچکاتھا ،سامان وصول کیا  اورکچھ وقت کے بعد فیڈرل بی ایریامیں کرایہ اور25000ایڈوانس دے کرکرایہ پر جگہ لی سارے کباڑکووہاںشفٹ کیا،اورفٹ کرکے فیکٹری میں تبدیل کرکے اپنا روزگارشروع کردیا اوربوہری سیٹھ کی بقایارقم 50000بوہری سیٹھ کے انتقال کے بعد اس کے بیٹے ضیاءبھائی کو دے دی گئی،بس اس فیڈرل بی ایریا والی فیکٹری اورکل سامان بمع کباڑ والے سودے کے بارے میں مسئلہ معلوم کرناچاہتاہوں۔میرے سوالات درج ِذیل ہیں :

١١۔کیا بوہری سیٹھ کی فیکٹری کا سامان جو کباڑ میں تبدیل ہوا ،کیا  یہ بھی میرے ابو کی وراثت سے تعلق رکھتاہے ؟

۲۔ فیڈرل بی ایریا میں نئی کمرشل فیکڑی جو مالک بشیر بھائی کو 25000ایڈوانس دے کراورماہوار30فیصد کرایہ طے کرکے شروع کی گئی تھی اوراس میں اپنا ذاتی روزگارشروع کیاگیاتھا  تو کیا  یہ نئی فیکٹری بھی ابوکی وراثت سے تعلق رکھتی ہے؟

۳۔کیااس نئی جگہ کی فیکٹری کی آمدنی بھی ابو کی کی وراثت سے تعلق رکھتی ہے ؟

۴۔اس کباڑ والے سودے کے بعد بوہری سیٹھ کا انتقال ہوا، اوران کی طے کی ہوئی رقم 50000میں (یحی اقبال) خود ان کے اکلوتے بیٹے بھائی ضیاء کو ادا کرچکا ہوں اوراس سودے کے سارے حالات سے بھی آگاہ کرچکا ہوں تو کیا میرا قرض ادا ہوگیاہے؟

۵۔کباڑ کی کل قیمت 67000روپے طےہوئی تھی اوراس میں سےمیرے ابوکی وہ 17000روپے جو بوہری سیٹھ کے ذمہ تھےمحسوب کئے گئےتھےپوچھنایہ ہے کہ کیا یہ ابووالی رقم وراثت میں رکھی جائے گی؟

٦٦۔ابونے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں ایک شخص طاہر پٹھان کو فیکٹری لگانے کے عوض 27000نقد دیئےاورانتقال ہوگیا پھر بقایافیکٹری کا کا م بغیر کسی اجرت کے اس نے مکمل کرکے دیا ،لیکن 4سال بعد جب ہم اپنی فیکٹری سے روزگارکمانے لگے تو اسی شخص طاہر پٹھان نے میرے ابو کے ذمہ 16000روپے کا سامان کا لگایاجو اس کو نہیں مل سکا تھا،تو ہم دونوں بھائیوں نے مل کر اپنی ذاتی فیکٹری کی کمائی سےاس کو 16000دیئے،تواب وراثت میں 1000روپے رکھناہوگایا شرعی طورپرکیاحل ہوگا؟

والد صاحب کا انتقال 1981میں ہواتھا،اس کے بعد 2016میری امی کا انتقال ہوا اوراس کے بعد 2021میرے چھوٹے بھائی کاانتقال ہوا ان کے دوبچے ہیں،اب ہم ورثہ میں 2بھائی اور4بہنیں حیات ہیں ،شرعی حکم بیان کریں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

١۔ یہ سامان  آپ کے ابو کی وراثت میں نہیں آتا،کیونکہ یہ بوہری سیٹھ کی ملکیت ہے،تاہم اس کے خریدنے میں آپ کے والدکےجو17000روپے استعمال ہوئے ہیں وہ آپ پر قرض ہے،وہ آپ ترکہ میں رکھیں گے۔مزیدتفصیل آخری جواب میں آرہی ہے۔

۲۔یہ فیکٹری  آپ کی ہے، والد کی میراث میں یہ نہیں آتی،البتہ اس کےسامان خریدنے میں جو  17000روپے والد کے استعمال ہوئےہیں وہ آپ پر قرض ہے،ترکہ میں رکھنے ہونگے،مزید تفصیل آخری جواب میں ملاحظہ فرمائیں۔

۳۔ نہیں،اس کی آمدنی وراثت  سےتعلق نہیں کررکھتی،وہ صرف آپ کی ہے۔

۴۔ اگر  بوہری سیٹھ کایہ اکلوتابیٹا اپنے والد کا وصی (جانشین) تھا یا دیگر ورثاء نے اس کو اپنے اپنے حصے وصول کرنے کی صراحتاََ یا دلالتاََ ‏اجازت دی تھی (مثلاً: اس نے دوسروں کو اطلاع کردی اور انہوں نے اس پر رضامندی یا خاموشی اختیار کرلی یا منتظم ‏یا بڑا ہونے کی حیثیت سے دلالتا سب کی طرف سے اس کو اجازت تھی) تو ایسی صورت میں  آپ کی( اس کو ‏سارا قرضہ دینے سے) ذمہ داری ختم ہوگئی، لیکن اگر ان میں سے کوئی صورت نہ ہو توآپ کی ذمہ داری ختم نہیں ہوئی اور بوہری سیٹھ کےدیگر ورثاء کو آپ سے مطالبہ کا حق بدستور باقی رہے گا، لہٰذا ان کے مطالبہ کرنے پرآپ پر ان ‏کے حصوں کی بقدران کورقم دینا ہوگی اور آپ ضیاء سے دیگر اپنے والد کےدیگرورثاء کے حصے واپس لے سکیں گے ۔

۵۔ جی ہاں یہ رقم وراثت میں رکھی جائے گی ،مزید تفصیل آخری جواب میں ملاحظہ کریں۔

٦۔ طاہر پٹھان نے  میت یعنی آپ کے والد  پرقرض  یعنی سامان کی قیمت کا دعوی کیاہے اگراس کے پاس اپنے اس دعویٰ پر گواہ نہ ہوں،اور میت کے ورثاء یعنی آپ لوگوں میں سے کوئی وارث ان کے  دعویٰ کااقراربھی نہ کرتا ہوتواس صورت میں  محض دعویٰ کے ذریعہ طاہرپٹھان  قرض وصول نہیں کرسکتا ،پھر بھی اگرلوگوں نے دیئے ہیں یہ آپ کی طرف سے تبرع تھا،لہذا ترکہ سے آپ لوگ یہ رقم اب نہیں لے سکتے،اسی طرح اگرآپ دونوں نے ان  کےحق ہونے کا اعتراف کیا تھا اورباقی ورثہ نے نہیں کیا تھا تو پھر صرف آپ دونوں  پر اپنے حصہ میراث کی تناست سے رقم واجب ہوگی، باقی رقم آپ ان سے واپس لے سکتے ہیں مگرترکہ سے نہیں اٹھاسکتے ۔

اگرسب ورثہ نے اعتراف کیا اوراورپھر آپ دونوں نے اپنی طرف سے اداکیاتوپھراس صوت میں آپ یہ ساری رقم آپ ترکہ سے لےسکتے ہیں،البتہ چونکہ ترکہ میں سے 17000روپے آپ نے اپنے لیے سامان خریدنے میں استعمال کیےہیں،لہذا اب آپ صرف 1000روپے ترکہ میں رکھیں گے۔یہ آخری پیرا گراف وہ تفصیل ہے جس کی طرف سابقہ جواب میں اشارہ کیاگیا تھا ۔

آپ کے مسئلہ میں تین حضرا ت کا یکے بعد دیگرے انتقال ہوا ہے،آپ کے والدکا 1981 میں، ان کے بعد آپ کی والدہ کا 2016 میں اورپھرآپ کے چھوٹےبھائی کا2021میں، اگرآپ ان سب کے شرعی ورثہ کےحصے معلوم کرناچاہتے ہیں تو پھران تین میں سے ہر ایک کے انتقال کے وقت جوجوزندہ ورثہ تھےان کی فہرست ترتیب وار بمع ان کے نام مہیا کرنا ہوگی،اس کے بعدان کےحصوں کا تعیین کیاجاسکےگا۔

حوالہ جات
وفی شرح المجلة، المادة:1090 (ج:4، ص:2930)
إذا أخذ أحد الورثة مبلغاً من الدّراهم من التركة قبل القسمة بدونِ إذنِ الآخرين و عمل فيه و خسر فتكون الخسارة عائدة إليه كما أنّه إذا ربح فلا يسوغ لبقيّةِ الورثةِ طلبُ حصّةٍ منه) لأنه إما غاصب أو مستودع، وكل منهما استربح فيما في يده لنفسه، يكون ربحه له لا للمالك، لكن يملكه ملكا خبيثا سبيله التصدق على الفقراء.
وفی دررالحکام:                                                                                                                                                                                                                     
"إذا أخذ الورثة مقدارا من النقود من التركة قبل القسمة بدون إذن الآخرين وعمل فيه فخساره يعود عليه , كما أنه لو ربح لا يأخذ الورثة حصة فيه ) إذا تصرف أحد بلا إذن في مال الغير وربح يكون الربح له , ويتفرع عن ذلك مسائل عديدة : المسألة الأولى - إذا أخذ أحد الورثة مقدارا من النقود من التركة قبل القسمة بدون إذن الآخرين أو إذن الوصي إذا كان الورثة صغارا فكما أن الضرر يعود عليه ويأخذ الورثة حصتهم في رأس المال فقط كذلك لو ربح فلا يأخذ الورثة حصة من الربح........مثلا لو أخذ أحد الورثة من تركة مورثه بدون إذنهم مائة دينار وباع واشترى بها فربح خمسين دينارا فتكون الخمسون دينارا له وليس للورثة الآخرين الاشتراك في هذا الربح ويكون ذلك الوارث ضامنا للورثة حصصهم في رأس المال كما أنه لو خسر في البيع والشراء تلك المائة الدينار كلا أو بعضا فيعود الخسار المذكور عليه ويضمن حصص الورثة الآخرين"۔(3/50دارالکتب)
درر الحكام شرح مجلة الأحكام: (53/3، ط: دار الکتب العلمية)‏
‏( إذا كان لاثنين أو أكثر في ذمة واحد دين ناشئ عن سبب واحد فهو دين ‏مشترك بينهم شركة ملك , وإذا لم يكن سببه متحدا فليس بدين مشترك.‎
الدر المختار: (299/4، ط: دار الفكر)‏
‏(وهي ضربان: شركة ملك، وهي أن يملك متعدد) اثنان فأكثر (عينا) أو حفظا ‏كثوب هبه الريح في دارهما فإنهما شريكان في الحفظ قهستاني (أو دينا) على ما ‏هو الحق؛ فلو دفع المديون لأحدهما فللآخر الرجوع بنصف ما أخذ فتح‎ ‎وسيجيء متنا في الصلح.‎..... (وكل) من شركاء الملك (أجنبي) في الامتناع عن تصرف مضر (في مال ‏صاحبه) لعدم تضمنها الوكالة.‎
وفی رد المحتار: (307/4، ط: دار الفكر)‏
‏ يقع كثيرا في الفلاحين ونحوهم أن أحدهم يموت فتقوم أولاده على تركته بلا ‏قسمة ويعملون فيها من حرث وزراعة وبيع وشراء واستدانة ونحو ذلك، وتارة ‏يكون كبيرهم هو الذي يتولى مهماتهم ويعملون عنده بأمره وكل ذلك على وجه ‏الإطلاق والتفويض، لكن بلا تصريح بلفظ المفاوضة ولا بيان جميع مقتضياتها ‏مع كون التركة أغلبها أو كلها عروض لا تصح فيها شركة العقد، ولا شك أن ‏هذه ليست شركة مفاوضة، خلافا لما أفتى به في زماننا من لا خبرة له بل هي ‏شركة ملك كما حررته في تنقيح الحامدية.‏
وفی الشامیة:
''وإن لم تکن للمدعی بینة وأراد استحلاف هذا الوارث یستحلف علی العلم عند علمائنا - رحمهم الله تعالی - بالله ما تعلم أن لهذا علی أبیک هذا المال الذی ادعی وهو ألف درهم ولا شیء منه،فإن حلف انتهی الأمر وإن نکل یستوفی الدین من نصیبه''۔(فتاویٰ هندیة، کتاب ادب القاضی، الباب الخامس والعشرون فی اثبات الوکالة والوراثة وفی اثبات الدین،-(فتاویٰ شامی، 5/553،ط: بیروت)
قال في الفتاوى الهندية:
"وهوأن يموت بعض الورثةقبل قسمة التركة كذا في محيط السرخسي وإذا مات الرجل ،ولم تقسم تركته
 حتى مات بعض ورثته ......فإن كانت ورثة الميت هم ورثة الميت الأول،ولا تغير في القسمة تقسم قسمة واحدة ؛ لأنه لا فائدة في تكرار القسمة بيانه إذا مات وترك بنين وبنات ثم مات أحد البنين أو إحدى البنات ولا وارث له سوى الإخوة والأخوات قسمت التركة بين الباقين على صفة واحدة للذكر مثل حظ الأنثيين فيكتفي بقسمة واحدة بينهم وأما إذا كان في ورثة الميت الثاني من لم يكن وارثا للميت الأول فإنه تقسم تركة الميت الأول ، أولا ليتبين نصيب الثاني ثم تقسم تركة الميت الثاني بين ورثته فإن كان يستقيم قسمة نصيبه بين ورثته من غير كسر فلا حاجة إلى الضرب."     (ج:51,ص:412, المكتبة الشاملة)

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

3/6/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے