82118 | طلاق کے احکام | شوہر کی وفات پر سوگ منانا |
سوال
میرا سوال یہ ہے کہ اگر کسی عورت کا شوہر فوت ہوجائے تو اس پر عدت گزارنا لازم ہے یا نہیں ؟اگر لازم ہے تو علاج کےلیے ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت پیش آجائے تو اس وقت کیا حکم ہوگا ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
جس عورت کا شوہر فوت ہوجائے ،اس پرچار ماہ دس دن تک یااگر حاملہ ہو تو وضع حمل تک عدت گزارنا لازم ہے ۔عدت میں عورت کے لیے بغیرکسی شرعی عذر کےگھر سے باہر نکلناجائز نہیں، تاہم شرعی عذر کی بنیاد پر ،جیسے نان نفقے کا بندوبست نہ ہو نے کی وجہ سے دن کو گھر سے نکلنا ہو یابیماری کی وجہ سے ڈاکٹرکے پاس جانا ہو تو عورت کے لیے گھرسے نکلنے کی اجازت ہے۔جیسےہی ضرورت پوری ہوتوفوری طورپرگھرواپس آنا ضروری ہے ۔نیز رات بہر حال گھر میں ہی گزارنا ضروری ہے۔
حوالہ جات
قال اللہ تعالی : وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا.(سورة البقرة :234)
قال جمع من العلماء رحمھم اللہ :عدة الحرة في الوفاة: أربعة أشهر وعشرة أيام .سواء كانت مدخولاً بها أو لا ... حاضت في هذه المدة أو لم تحض ،ولم يظهر حبلها، كذا في فتح القدير.(الفتاوى الهندية 1/531:)
قال جمع من العلماء رحمھم اللہ :وعدة الحامل أن تضع حملها، كذا في الكافي. سواء كانت حاملًا وقت وجوب العدة أو حبلت بعد الوجوب،كذا في فتاوى قاضي خان. الفتاوى الهندية: (1/ 528)
قال العلامة ابن عابدين رحمه الله : ( وتعتدان ) أي معتدة طلاق وموت ( في بيت وجبت فيه ) ولا يخرجان منه ( إلا أن تخرج أو ينهدم المنزل ، أو تخاف ) انهدامه ، أو ( تلف مالها ، أو لا تجد كراء البيت ) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه. (رد المحتار : 12 / 453)
قال العلامة ابن عابدين رحمه اللہ :لا تخرج المعتدة عن طلاق، أو موت إلا لضرورة .رد المحتار: (3/ 536)
اگر ڈاکٹر کو گھر پر نہ بلایا جاسکتا ہو اور مرض شدیدہ ہو تو ایسی مجبوری میں ڈاکٹر کے پاس جانا جائز ہے ۔(احسن الفتاوی :5/442)
محمد مفاز
دارالافتاء جامعۃ الرشید،کراچی
26جماد ی الاولی1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد مفاز بن شیرزادہ خان | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |