81920 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
ایک شخص جس کا سات سال قبل انتقال ہوچکا تھا، لیکن اس کی وراثت تا حال تقسیم نہیں ہوئی، اس کے ورثہ کی تفصیل درج ذیل ہے: والدہ ،ایک بیوی ،چار بیٹیاں ،نرینہ اولاد کوئی نہیں ہے، ایک بھائی اور پانچ بہنیں ہیں ، جن میں سے ایک بہن کاتین ماہ قبل انتقال ہوچکا ہے ۔براہ کرم مذکورہ ورثہ پر تقسیمِ وراثت کی تفصیل بتلادیجیے۔ فجزاکم اللہ خیرا۔
تنقیح :سائل سے پوچھنے پر معلوم ہو ا کہ مرحومہ بہن کے ورثہ میں مرحومہ کا شوہر اور ایک بیٹا شامل ہے ۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مرحوم کے ترکہ میں سے سب سے پہلے تجہیز وتکفین کامعتدل خرچہ (اگركسی وارث نے یہ خرچہ بطورتبرع نہ کیا ہو ) اداکیاجائےگا،پھر مرحوم کاقرضہ اداکیاجائےگا،تیسرے نمبر پر اگرمرحوم نے کسی کے لیے اپنے مال میں سے تہائی حصہ تک وصیت کی ہے تو اسے اداکیاجائے،اس کےبعدموجود ورثہ میں میراث تقسیم کی جائےگی۔موجودہ صورت میں مرحومہ کےمال میں سابقہ تینوں حقوق اداءکرنےکےبعدموجودورثہ(ایک بیوی ،والدہ ،،چار بیٹیاں ، پانچ بہنیں ،ایک بھائی،مرحومہ بہن کا شوہر اور اس کا ایک بیٹا ) میں میراث کی تقسیم کی جائےگی۔
فیصدی اعتبارسے زوجہ کا حصہ 12.5 فیصد ،والدہ کواپنے شوہر اور بیٹی سے ملنے والا مجموعی حصہ 16.76فیصد اور ہر ایک بیٹی کا حصہ 16.66 فیصد ، بھائی کا حصہ 1.19 فیصد ، بہنوں میں سے ہر ایک بہن کا حصہ 0.6 فیصد ہوگا ۔مرحومہ بہن کے حصہ میں سے ایک چوتھائی اس کے شوہر کو دے کر باقی تین چوتھائیاں ترکہ سے بیٹے کو ملے گا ۔
نقشہ برائے تقسیم میراث:
نمبر شمار |
ورثہ |
فیصد |
نمبر شمار |
ورثہ |
فیصد |
1 |
زوجہ |
12.5% |
2 |
والدہ کا مجموعی حصہ |
16.76% |
3 |
پہلی بیٹی |
16.666% |
4 |
دوسری بیٹی |
16.666% |
5 |
تیسری بیٹی |
16.666% |
6 |
چوتھی بیٹی |
16.666% |
7 |
بھائی |
1.190% |
8 |
پہلی بہن |
o.595% |
9 |
دوسری بہن |
o.595% |
10 |
تیسری بہن |
o.595% |
11 |
چوتھی بہن |
o.595% |
12 |
مرحومہ بہن کا شوہر |
ایک چوتھائی |
13 |
مرحومہ بہن کا بیٹا |
تین چوتھائیاں |
|
|
|
حوالہ جات
ﵟيُوصِيكُمُ ٱللَّهُ فِيٓ أَوۡلَٰدِكُمۡۖ لِلذَّكَرِ مِثۡلُ حَظِّ ٱلۡأُنثَيَيۡنِۚ فَإِن كُنَّ نِسَآءٗ فَوۡقَ ٱثۡنَتَيۡنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَۖ وَإِن كَانَتۡ وَٰحِدَةٗ فَلَهَا ٱلنِّصۡفُۚ وَلِأَبَوَيۡهِ لِكُلِّ وَٰحِدٖ مِّنۡهُمَا ٱلسُّدُسُ ﵞ [النساء: 11]
ﵟوَلَكُمۡ نِصۡفُ مَا تَرَكَ أَزۡوَٰجُكُمۡ إِن لَّمۡ يَكُن لَّهُنَّ وَلَدٞۚ فَإِن كَانَ لَهُنَّ وَلَدٞ فَلَكُمُ ٱلرُّبُعُ مِمَّا تَرَكۡنَۚ مِنۢ بَعۡدِ وَصِيَّةٖ يُوصِينَ بِهَآ أَوۡ دَيۡنٖۚ ﵞ [النساء: 12]
ﵟفَإِن كَانَ لَكُمۡ وَلَدٞ فَلَهُنَّ ٱلثُّمُنُ مِمَّا تَرَكۡتُمۚ مِّنۢ بَعۡدِ وَصِيَّةٖ تُوصُونَ بِهَآ أَوۡ دَيۡنٖۗﵞ [النساء: 12]
فقال: (فيفرض للزوجة فصاعدا الثمن مع ولد أو ولد ابن) وأما مع ولد البنت فيفرض لها الربع (وإن سفل، والربع لها عند عدمهما) فللزوجات حالتان الربع بلا ولد والثمن مع الولد (والربع للزوج) فأكثر. (الدر المختار:512)
للبنات ستة أحوال: ثلاثة تتحقق في بنات الصلب، وبنات الابن وهي النصف للواحدة والثلثان للأكثر وإذا كان معهن ذكر عصبهن ...... وللزوجة الربع عند عدمهما والثمن مع أحدهما، والزوجات والواحدة يشتركن في الربع والثمن وعليه الإجماع.(رد المحتار :515/10)
وإذا اختلط البنون والبنات عصب البنون البنات فيكون للابن مثل حظ الأنثيين، كذا في التبيين.(الفتاوى الهندية 🙁500,498/6)
وكذلك إذا كان معها بدرجتها ذكر (أي) أخ لأب وأم تصير عصبة وفى الكافي ومع الأخ لأب وأم للذكر مثل حظ الأنثيين.(الفتاوی التتارخانیۃ : 237/20)
وأما الربع ففرض صنفين فرض الزوج إذا كان للميت ولد أو ولد ابن ،وفرض الزوجة أو الزوجات إذا لم يكن للميت ولد ولا ولد ابن وأما الثمن ففرض الزوجة أو الزوجات إذا كان للميت ولد أو ولد ابن .
(الفتاوى الهندية : 500/6 )
عبدالعزيز
دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی
7 جمادی الاولی 1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبدالعزيز بن عبدالمتين | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |