021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
"اب آپ آزاد ہو” کہنے کا حکم
82053طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص کی بیوی بات بات پر اپنے شوہر سے ناراض ہوتی ہو، ہر بات منوانے پر مجبور کرتی ہو، معمولی باتوں پر منہ لٹکائے رہتی ہو، گلے شکوے اس کا معمول بن چکا ہو، بنا کسی وجہ کے پوری رات بغیر بیماری یا کسی پریشانی کے روتی رہتی ہو، جب شوہر اسے سمجھانے کی کوشش کرتا ہے تو آگے سے بیوی کا جواب یہ آتا ہے:

"مَیں تو یہاں پہ پَرائی یعنی اجنبی ہوں؛ اس لیے یہ سب میرے ساتھ ہو رہا ہے۔"

بہرحال، جب شوہر تنگ آ جاتا ہے تو اپنی بیوی کو سدھارنے کے لیے بتکلف ناراض ہو جاتا ہے، یعنی پشتو زبان میں "مرور" ہو جاتا ہے، اور اپنی بیوی سے بستر علیحدہ کر دیتا ہے اور باتیں بھی ترک کر دیتا ہے۔ جب بیوی اپنے شوہر کو راضی کرنے آتی ہے تو شوہر کہتا ہے جواباً:

"اب آپ آزاد ہو، مجھ کو معاف کر دو، اب آپ اپنی مرضی کرتے رہو، تجھے کوئی بھی نہیں روکے گا، بس اب آپ آزاد ہو۔ تم اپنی مرضی پر چلنا، مَیں اپنی مرضی پر چلوں گا۔ تم جو چاہو وہی کرنا۔ اپنی مرضی کے مطابق جو کام پسند ہو وہی کرنا، مَیں آپ کو بالکل نہیں روکوں گا، اور نہ ہی آپ سے کچھ کہوں گا کہ یہ آپ غلط کر رہی ہو۔"

لیکن بیوی بار بار اصرار کرتی رہی اور شوہر کہتا رہا:

"آپ آزادی چاہتی تھی نا، تو اب آپ آزاد ہو، جو مرضی کرو، جب چاہو جیسا بھی چاہو، اپنی مرضی کی مالک ہو، اور اپنی مرضی کا کام کرو، جو آپ کو پسند ہو وہی کرنا۔ اب آپ سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ اور ویسے بھی مجھے راضی کرنے کا کیا فائدہ، تم تو اپنی مرضی پر چلتی ہونا، تو کیوں راضی کرنا چاہتی ہو؟ اور مَیں ناراض ہوں یا نہیں، آپ کو اس سے کیا لینا دینا؟ کیونکہ آپ تو وہی کرتی ہو جو آپ کو پسند ہو۔ اپنے شوہر کی پسند یا ناپسند نہیں دیکھتی۔ مَیں ناراض نہیں ہوں، بس مجھے اپنے حال پر چھوڑ دو، مَیں جو بھی کروں، جہاں چاہوں جیسا بھی چاہوں، میری اپنی مرضی، آپ کی اپنی مرضی۔ بس مَیں آپ کو اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کے کہتا ہوں کہ مجھے معاف کر دو۔"

پھر بیوی کہتی ہے:

"آئندہ سے ایسا نہیں ہوگا، اور مجھے بتاؤ کہ آخر مَیں کہاں جاؤں آپ کے علاوہ؟"

شوہر کہتا ہے:

"بس جہاں جانا ہے جاؤ، لیکن مجھے معاف کر دو۔ آپ نے تو مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ اتنا بے غیرت بنا دیا کہ نہ گھر والوں کے سامنے آنکھ اٹھانے کا چھوڑا اور نہ باہر والوں کے سامنے۔"

یہ سب باتیں بالکل عام معمول کے مطابق ہو رہی تھی، نہ غصے کی حالت تھی نہ اس سے پہلے کوئی بحث و مباحثہ چل رہا تھا۔ تاہم اس کے بعد بیوی ناراض ہوکر اپنے گھر یعنی میکے چلی گئی، اس کو دو دن کے بعد راضی کر کے لایا گیا، تو اس سے شوہر نے کہا:

"آخر کیا وجہ ہے تم ایسے کیوں کر رہی ہو؟ اب بتاؤ کیا وجہ ہے؟ اگر مَیں پسند نہیں ہوں تو مجھے بتا دینا، مَیں کسی سے نہیں کہوں گا، اور پھر مَیں آپ کو اجازت دے دوں گا کہ تم جہاں چاہو شادی کر لینا۔"

ان ساری باتوں کے دوران شوہر کی نیت طلاق کی بالکل نہیں تھی، نہ پہلی والی باتوں کے دوران طلاق کی نیت تھی اور نہ سوچ و گمان میں تھا، اور نہ اس بات کے وقت کہ "مَیں پھر آپ کو اجازت دے دوں گا کہ آپ دوسری شادی کر لینا" طلاق کی نیت تھی اور اس دوران بھی طلاق کے بارے میں سوچ و گمان نہ تھا۔

بہرحال، یہ سب باتیں بالکل عام نارمل حالت میں ہوئی تھی، نہ غصے کی حالت تھی، نہ کوئی ایسا طلاق کا مباحثہ ہو رہا تھا، اور یہ سب باتیں شوہر نے صرف برائے تنبیہ کی تھی کہ وہ سدھر جائے۔ نیز پہلی مرتبہ جب یہ بات ہوئی کہ "آپ آزاد ہو، اب آپ اپنی مرضی پر چلنا" اس کے بعد شوہر اور بیوی کے درمیان دو یا تین مہینوں تک حقوقِ زوجیت بھی ادا ہوتے رہے، اور بیوی عالمہ ہیں جوکہ تقریباً 10،  12 سال سے پڑھا بھی رہی ہیں۔ اور بیوی کے والد بھی عالم ہیں، ان کو سب باتوں کا بخوبی علم تھا۔

لیکن اس کے بعد اب دوبارہ بیوی ناراض ہوکر میکے چلی گئی، اور بقایا مہر اور کچھ سامان کا مطالبہ کر رہی ہے۔ اور ایسا اس لیے کر رہی ہے کہ لڑکی والوں کا کہنا ہے کہ بیوی کو طلاق دے دی گئی ہے۔

ہم نے یہاں کے دارالافتاؤں سے معلوم کیا ہے کہ کیا "آزاد" لفظ ہمارے عُرف میں طلاق کے لیے مستعمل ہے؟ تو لکی سٹی کے مشہور دارالافتاء، دار الہُدیٰ سے ہمیں یہ جواب ملا:

"ہمارے ہاں "آزاد" لفظ کا عُرف نہیں ہے، اور ہمارے ہاں "آزاد" لفظ سے بغیر نیت کے طلاق واقع نہیں ہوتی۔"

مذکورہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟ اگر واقعی ہوگی تو قضاءً ودیانتاً واقع ہوگی  یا صرف قضاءً ثابت ہوگی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں مذکورہ جملہ "اب آپ آزاد ہو" جس سیاق و سباق میں استعمال ہوا ہے اور آگے پیچھے جملوں سے اس کا جو مفہوم نکلتا ہے، وہ طلاق کے معنیٰ میں صریح نہیں، لہٰذا ان الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

 البتہ اگر شوہر طلاق دینے کی نیت کا دعویٰ کرے، تو پھر اُس سے طلاق کے وقوع کا حکم ہوگا۔ مذکورہ صورت میں چونکہ شوہر کا کوئی ایسا دعویٰ نہیں، لہٰذا ان الفاظ سے طلاق کو واقع سمجھنا غلط ہے۔ بیوی پر لازم ہے کہ شوہر کے پاس جائے اور نُشوز اور نافرمانی کی یہ کیفیت ختم کرے۔

حوالہ جات
الدر المختار (3/246):
"(ويقع الطلاق بلفظ العتق بنية) أو دلالة حال، (لا عكسه)؛ لأن إزالة الملك أقوى من إزالة القيد."
رد المحتار (10/495):
"(قوله: ويقع الطلاق إلخ) يعني: إذا قال لامرأته: أعتقتك، تطلق إذا نوى أو دل عليه الحال."
الدر المختار (3/296):
"( كنايته [الطلاق]) عند الفقهاء (ما لم يوضع له) أي الطلاق، ( واحتمله وغيره. (ف) الكنايات (لا تطلق بها) قضاء، (إلا بنية أو دلالة الحال)، وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب. فالحالات ثلاث: رضا، وغضب، ومذاكرة، والكنايات ثلاث: ما يحتمل الرد، أو ما يصلح للسب، أو لا ولا ... ففي حالة الرضا) أي غير الغضب والمذاكرة (تتوقف الأقسام) الثلاثة تأثيرا (على نية) للاحتمال، والقول له. (وفي الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع، وإلا لا. (وفي مذاكرة الطلاق) يتوقف (الأول فقط) ويقع بالأخيرين وإن لم ينو؛ لأن مع الدلالة لا يصدق قضاء في نفي النية؛ لأنها أقوى، لكونها ظاهرة، والنية باطنة."
رد المحتار (11/179):
"والحاصل أن الأول [ما يحتمل الرد] يتوقف على النية في حالة الرضا والغضب والمذاكرة. والثاني [ما يصلح للسب] في حالة الرضا والغضب فقط، ويقع في حالة المذاكرة بلا نية. والثالث [ما لا يحتمل الرد، وما لا يحتمل للسب] يتوقف عليها في حالة الرضا فقط، ويقع حالة الغضب والمذاكرة بلا نية."

احمد الرحمٰن

دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

20/جمادی الاولی/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احمد الرحمن بن محمد مستمر خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے