021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
لے پالک بیٹے کی نسبت اپنی طرف کرنا
82263جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ میری شادی کو 16سال ہوگئے ہیں،لیکن میری اب تک کوئی اولاد نہیں ہوئی، یہ اللہ پاک کی مصلحت ہے اوروہی بہترجانتاہے،اسی دوران تقریبا12پہلے میں نےتین ماہ کا ایک شیرخوار بچہ جس کی جنس لڑکا ہے ان کے والدین کی خوشی سے گود لیا، اس کے بعد وہ والدین کراچی سے کہیں اورچلےگئے، اورمجھے کوئی علم نہیں ہے کہ وہ زندہ ہیں یا مرگئے ہیں، چونکہ میری بھی کوئی اولاد نہیں تھی تو میں نے بھی بچے کو خوشی سے گود لیا اورابھی تک اللہ کی طاقت سے پال رہا ہوں، بچہ اسکول میں پڑھ رہاہے، نادرا اورسرکاری کاغذات بنوانے میں والداوروالدہ کا نام لکھوانا ضروری ہوتاہے،مجھے ابھی بچہ کا پیدائشی سرٹیفیکٹ اور"ب" فارم بناناہے جو کہ بچہ کو آئندہ زندگی میں کام آئے گا،میں اصل والدکی جگہ اپنا نام اوراصل والدہ کی جگہ اپنی بیوی کا نام لکھوانا چا ہتا ہوں،میرا سوال یہ ہےکہ

کیا میں اپنانام والد کی جگہ اوربیوی کانام والدہ کی جگہ لکھوا سکتا ہوں یا نہیں؟ آنے والے وقت میں وراثت اس کوحصہ دیا جائے گا یانہیں ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

  شرعاًکسی بچے کومنہ بولا بیٹا بنانا ،اس کی پرورش کرنا ،اور بیٹے کی طرح پالنااور تربیت کرنا  اگرچہ جائز ہے،  لیکن شرعی لحاظ سے وہ حقیقی طور پر نسبی بیٹا نہیں بنتا ،اور نہ ہی اس  پربیٹے ہونے کے احکامات  مثلاًوراثت ،اورشرعی پردہ وغیرہ جاری ہوتے ہیں،اور پرورش کرنے والا بچے کا حقیقی والد نہیں ہوگا،لہذا صورتِ مسئلہ میں  آپ کے لئے اس بچے کی پرورش کرنا ،اس کی  تعلیم وتربیت کرنا  ،اور ایک دوسرے کے ساتھ باپ بیٹے کی طرح پیش آنا  جائزہوگا  ،لیکن  اس کے نام ونسب کواس کے حقیقی والد کی طرف منسوب کر نا ضروری ہے ،لہذا اس  کےبرتھ سرٹیفکیٹ،"ب"فارم، شناختی کارڈ،پاسپورٹ وغیرہ میں آپ  کےلیےاپنا نام بطوروالدلکھنا اوربیوی کانام بطوروالدہ لکھناجائز نہیں ہوگا،اسی طرح جب وہ بچہ بالغ ہوجائے تو آپ کی والدہ اوربہنوں پراس سے پردہ کرنا ضروری ہوگا۔

اگر اصلی باپ کا نام معلوم نہیں توپہلےاچھی طرح اس کی معلومات کروا لیں اگرمعلوم ہوجائے تو باپ کے طورپر اسی اصلی باپ کا نام لکھوائیں اور اگر کوشش کے باوجود کسی طرح اس کے اصلی باپ کا نام معلوم نہ ہو سکے توپھرآپ اپنانام سر پرست کے کالم میں بطورسرپرست لکھیں اوراگر اس حوالے سے کسی قسم کی مشکلات کا سامنا  ہوتو کسی وکیل سے رابطہ کرکے اس سے راہنمائی لیں،حقیقی والد کے کالم میں  ہر گز اپنا نام نہ لکھیں،اگر جان بوجھ کر خود کو حقیقی باپ کہیں گے  یالکھیں گے تو یہ  درج ذیل دو وعیدوں میں  داخل ہوگا:

(1)… حضرت سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص کو یہ معلوم ہو کہ اس کا باپ کوئی اور ہے اور اس کے باوجود اپنے آپ کو کسی غیر کی طرف منسوب کرے تو اس پرجنت حرام ہے۔‘‘( بخاری، کتاب الفرائض، باب من ادعی الی غیر ابیہ،  ۴ / ۳۲۶، الحدیث: ۶۷۶۶)

(2)… حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے خود کواپنے باپ کے غیرکی طرف منسوب کیایاجس غلام نے اپنے آپ کواپنے مولیٰ کے غیرکی طرف منسوب کیااس پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ،فرشتوں  کی اورتمام لوگوں  کی لعنت ہو،قیامت کے دن اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کاکوئی فرض قبول فرمائے گانہ نفل۔‘‘( مسلم، کتاب الحج، باب فضل المدینۃ ودعاء النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فیہا بالبرکۃ۔۔۔ الخ، ص۷۱۱، الحدیث: ۴۶۷ (۱۳۷۰))

اللہ تعالی کا بھی حکم ہے کہ’’اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآىٕهِمْ‘‘ (انہیں  ان کے حقیقی باپ ہی کا کہہ کر پکارو) جب اللہ تعالیٰ نے حقیقی باپ ہی کا کہہ کر پکارنے کاحکم فرما دیا اور اَحادیث میں  ایسا نہ کرنے پر انتہائی سخت وعیدیں  بیان ہو گئیں  تو کسی مسلمان کی یہ شان نہیں  کہ وہ اپنے رب تعالیٰ کے حکم کے برخلاف اپنی خواہشات کو پروان چڑھائے اور خود کو شدید وعیدوں  کا مستحق ٹھہرائے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔

حوالہ جات
قال اللہ تعالی :
 ادعوهم لآبائهم هو أقسط عند الله.
وفی تفسیر الوجيز للواحدي (ص: 858) :
{ادعوهم لآبائهم} أي: انسبوهم إلى الذين ولدوهم {هو أقسط عند الله} أعدل عند الله {فإن لم تعلموا آباءهم} من هم {فإخوانكم في الدين} أي: فهم إخوانكم في الدين {ومواليكم} وبنو عمكم وقيل: أولياؤكم في الدين {وليس عليكم جناح فيما أخطأتم به} وهو أن يقول لغير ابنه: يا بني من غير تعمد أن يجريه مجرى الولد في الميراث وهو قوله: {ولكن ما تعمدت قلوبكم} يعني: ولكن الجناح في الذي تعمدت قلوبكم.
وقال فی روح المعانی (۲۱: ۲۲۶،ط:مکتبة إمدادیة، ملتان،باکستان):
ویعلم من الآیة أنہ لا یجوز انتساب شخص إلی غیر أبیہ وعد ذلک بعضھم من الکبائر.
وقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم علیہ وسلم:من ادعی إلی غیر أبیہ فعلیہ لعنة اللہ والملائکة والناس أجمعین، لا یقبل منہ صرف ولاعدل (مشکوة شریف ص ۲۳۹، بحوالہ: صحیحین)
وفی الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 585)
قال - عليه الصلاة والسلام - «من انتسب إلى غير أبيه أو انتمى إلى غير مواليه فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين.
وفی مجلة مجمع الفقه الإسلامي (2/ 24006)
فقد حرم الإسلام التبني بنص القرآن الكريم ، وأن ينتسب الإنسان لأحد غير أبيه ، اللهم إلا أن يكون انتسابا مقيدا بعلم أو بسلوك .جاء في كتاب الدرر المباحة في الحظر والإباحة للنحلاوي ما نصه : "ومن حقهما - أي الوالدين - أن يتملق لهما ، ولا يرفع صوته فوق صوتهما ، ولا يجهر لهما بالكلام ، ويطيعهما فيما أباح الدين ، فإن رضاء الله في رضاهما ، وسخطه في سخطهما ، ولا ينتمي إلى غير والديه استنكافا منهما ، فإنه يوجب اللعنة" .

سیدحکیم شاہ عفی عنہ                          

 دارالافتاء جامعۃ الرشید

 9/6/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے