021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیوی کی خودکشی کی دھمکی کی وجہ سے طلاق نامہ پر دستخط کرنے کا حکم(جديد)
82400طلاق کے احکامتحریری طلاق دینے کا بیان

سوال

بندہ نے 2فروری 2023ء کو جامعة الرشید میں ایک سوال جمع کروایا تھا، جس میں تحریر کیا گیا تھا کہ موصوف نے جبرواکراہ کی حالت میں طلاق نامہ پر دستخط کیے تھے، جس کی بنیاد پر دارالافتاء جامعة الرشید نے عدمِ وقوع طلاق کا فتوی(نمبر:79615/45)جاری کیا، لیکن جب مقامی علمائے کرام سے رجوع کیا گیا تو انہوں نے اس فتوی پر عدمِ اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ ہماری رائے کے مطابق تین طلاقیں واقع ہو چکی ہیں، اس لیے آپ حضرات سے دوبارہ رجوع کیا جا رہا ہے کہ شریعت کی روشنی میں جامعہ سے جاری ہونے والے فتوی کا جائزہ لے کر دوبارہ فتوی جاری فرمائیں، مقامی علمائے کرام سے جو گفت وشنید ہوئی وہ بھی  سوال کے ساتھ منسلک ہے۔

وضاحت: سائل نے فون پر بتایا کہ میری بیوی کا علاج چل رہا تھا وہ مرض کی شدت کی وجہ سے مکمل درست حالت میں نہیں تھی،ڈیپریشن کے مرض میں مبتلا تھی،  البتہ بالکل پاگل یا مجنون بھی نہیں تھی، اسی حالت میں اس نے کہا کہ تم دوسری بیوی کو طلاق دو ورنہ میں گولیاں کھانے لگی ہوں، میں اس کی یہ حالت دیکھ کربہت زیادہ  گھبرا گیا، مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کروں؟ میں نے یہ صورتِ حال دیکھ کر طلاق نامہ پر دستخط کر دیے، یہ میرے علم میں نہیں کہ ان کے اور ان کے بھائی نے پہلے سے طے کر كے اتفاق سے ایسا کیا تھا یا نہیں! باقی اس کے علاوہ کوئی زبردستی اور جبرواکراہ نہیں تھا، البتہ پہلے سے سسرال والوں کی طرف سے مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ دوسری بیوی کو طلاق دو۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال کے جواب سے پہلی چند اصولی باتیں سمجھنا ضروری ہیں:

  1. فقہائے کرام رحمہم اللہ نے اکراہ غیر ملجی کی کوئی خاص تعریف بیان نہیں کی، بلکہ اس کا مدار آدمی کی حالت پر موقوف چھوڑا ہے، چنانچہ کتبِ فقہ میں کسی صاحبِ عزت وعظمت شخص کو مجمع میں ڈانٹنا یا کان مروڑنا بھی اکراہ میں شمار کیا گیا ہے، اس لیےعبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مدار اس پر ہے کہ اس اکراہ کے نتیجے میں آدمی کو شدید نقصان یا غم لاحق ہو اور اس کی نوعیت مختلف اشخاص کے اعتبار سے مختلف ہو سکتی ہے:

البحر الرائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (8/ 80) دار الكتاب الإسلامي:

وقد يكون فيه ما يكون في الحبس من الإكراه لما يجيء به من الاغتمام البين ومن الضرب ما يجد به الألم الشديد وليس في ذلك حد لا يزاد عليه ولا ينقص منه؛ لأنه يختلف باختلاف أحوال الناس فمنهم لا يتضرر إلا بضرب شديد وحبس مديد ومنهم من يتضرر بأدنى شيء كالشرفاء والرؤساء يتضررون بضرب سوط أو بفرك أذنه لا سيما في ملأ من الناس أو بحضرة السلطان. وفي الخانية، ولو أكره على بيع جارية ولم يعين فباع من إنسان كان فاسدا.

  1. اگرچہ اصولی اعتبار سے اکراہ اس صورت میں متحقق ہوتا ہے جب کسی فرد کی طرف سے آدمی کو کسی کام پر مجبور کیا جائے اور نہ کرنے کی صورت میں اس کی ذات کو نقصان پہنچانے کی دھمکی دی جائے، مگر فقہائے  حنفیہ رحمہم اللہ نے اکراہ کی بعض ایسی صورتیں بھی ذکر کی ہیں، جس میں اس کی ذات کو بالفعل کوئی نقصان نہیں پہنچتا، البتہ اس کی وجہ سے شدید غم اور پریشانی لاحق ہوتی ہے، جیسے والدین یا اولاد میں سے کسی کو جان سے مارنے یا قیدکرنے کی دھمکی دینا وغیرہ۔جہاں تک کسی شخص کا اپنے آپ کو مارنے کی دھمکی دینے کا تعلق ہے تو اگرچہ کتبِ حنفیہ میں اس کی صراحت نہیں ملی، مگر فقہائے شافعیہ رحمہم اللہ نےصراحت کی ہے کہ اگر والد نے اپنے بیٹے سے کہا کہ تم اپنی بیوی کو طلاق دو ،ورنہ میں اپنے آپ کو قتل کر لوں گا تو یہ بھی شرعاً اکراہ ہے، نیز شافعیہ کی کتب میں اصول وفروع دونوں  کا ذکر کیا گیا ہے:

حاشية الجمل على شرح المنهج (4/ 325) سليمان بن عمر الأزهري، المعروف بالجمل (المتوفى: 1204هـ) دار الفكر،بيروت:

الضابط السابق ومنه قول الوالد لولده طلقها وإلا قتلت نفسي فهو إكراه وكذا عكسه على المعتمد فيهما اهـ.

حاشية البجيرمي على الخطيب( 3/ 490) سليمان بن محمد بن عمر الشافعي (المتوفى: 1221هـ) دار الفكر،بيروت:

"وليس من الإكراه قول من ذكر طلّق زوجتك وإلا قتلت نفسي ما لم يكن نحو فرع أو أصل"                                                

نیزلفظ ِ"نحو" سے مفہوم ہوتا ہے کہ اگر اصول وفروع کی طرح کوئی اورقریبی رشتہ دار (جس کے ساتھ آدمی کا تعلق اتنا ہی گہرا ہو، جتنا اصول وفروع سے ہوتا ہے، جیسے بیوی اوربہن وغیرہ) یہ دھمکی دے تو اس کا بھی یہی حکم ہوگا۔ لہذا اگربیوی کی طرف سے خودکشی کی دھمکی دی جائے تو یہ صورت بھی اکراہ میں شامل ہو گی، خصوصاً جبکہ وہ اس کے بچوں کی ماں ہو۔ کیونکہ اکراہ کی اصل علت مکرہ بہ (جس کام پر مجبور کیا گیا ہو)نہ

کرنے کی صورت میں  آدمی کو شدیدنقصان یاغم کا لاحق ہونا ہے اور وہ یہاں بھی متحقق ہے۔[1]

  1. فقہائے کرام رحمہم اللہ نے کتابت کو بوقتِ ضرورت کلام کے قائم مقام قرار دیا ہے، لہذا جہاں ضرورت نہ ہو وہاں کتابت کو کلام کے قائم مقام ٹھہرانے کا کوئی معنی نہیں، اور کتابت میں ضرورت کا تحقق وہاں ہوتا ہے جہاں آدمی قصداً تحریرکے مضمون کو واقع کرنے کا ارادہ کرے،خواه دل میں اس کام کی نیت ہو یا اس کی حالت قصد پر دلالت کرے، جیسے بغیر جبرواکراہ کے مرسومہ (لوگوں کے عرف کے مطابق) طریقے پر طلاق نامہ لکھنا دلالتِ حال کی وجہ سے شرعا معتبر ہے، اگرچہ دل میں اس کی نیت نہ ہو، اس کے برخلاف  فقہائے کرام رحمہم اللہ نے بغیر نیت کے کتابتِ غیرمرسومہ میں وقوعِ طلاق کا حکم نہیں لگایا ، کیونکہ یہاں دل میں بھی نیت نہیں اور ظاہری حالت بھی ارادہ وقصد پر دلالت نہیں کرتی، لہذایہاں کتابت کو کلام کے قائم مقام قرار نہیں دیا جائے گا، اسی لیے احناف کے نزدیک حالتِ اکراہ میں  بغیر نیت کےتحریری طلاق واقع نہیں ہوتی:

فتاوى  قاضي خان(1/ 416) مكتبة رشيدية، كوئٹة:

رجل أكره بالضرب والحبس على أن يكتب طلاق امرأته فلانة بنت فلان بن فلان فكتب امرأته فلانة بنت فلان بن فلان طالق لا تطلق امرأته لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة ههنا.

  1. ہمارے اکابر کے بعض فتاوی سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ کتابتِ طلاق بغیر آدمی کی رضامندی کے معتبر نہیں، چنانچہ  فتاوی رحيمیہ میں حضرت مفتی عزیز الرحمن صاحب رحمہ اللہ  کا ایک فتوی نقل کیا گیا ہے، جس میں محض والد کی ناراضگی کو عدمِ رضامندی کی وجہ سے تحریراً طلاق کےوقوع سے مانع قرار دیا ہے:

جواب:کاغذ کی لکھی ہوئی طلاق تو اس حالتِ عدمِ رضا میں واقع نہیں ہوئی، مگر زبان سے دو مرتبہ طلاق کا لفظ نکلا اس سے دو طلاق رجعی واقع ہو گئی، عدت کے اندر رجوع کرنا درست ہے۔ فقط واللہ اعلم۔

  (فتاوی رحیمیہ:ج:8ص:273بحوالہ فتاوی دارالعلوم دیوبندج3،4،ص242)

مذکورہ بالا امور کی روشنی میں سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر واقعتاًطلاق نامہ پر دستخط کرتے وقت آپ کویقین یاظنِ غالب تھا کہ اگر آپ طلاق نامہ پر دستخط نہ کرتے تو آپ کی بیوی خود کشی کرلیتی، جس کے نتیجے میں آپ کو انتہائی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا تو اس صورت میں حالات کےجبر کے پیشِ نظر صرف لکھی ہوئی تحریر پر بغیر نیتِ طلاق اور رضامندی کے مجبوراً دستخط کرنے سے آپ کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، چنانچہ سابقہ فتوی میں اسی صورتِ حال کے پیشِ نظر عدمِ وقوع طلاق کا حکم ذکر کیا گیا تھا۔

 البتہ اگر ایسی صورتِ حال نہیں تھی مثلا: آپ کو بیوی کے خودکشی کرنے کا یقین یاظنِ غالب نہ ہو یا اس کی وفات کی صورت میں آپ کو شدید پریشانی نہ ہو، جیسے بعض اوقات میاں بیوی کے اختلاف کی صورت میں ایسی کیفیت پیش آجاتی ہےیاآپ نے دستخط کرتے وقت بادلِ نخواستہ (دو آزمائشوں میں سے کم کو اختیار کرتے ہوئے) طلاق کی نیت کر لی ہو تو ان تمام صورتوں میں آپ کے دستخط کرتے ہی آپ کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہو کر حرمتِ مغلظہ ثابت ہو چکی ہے اور اب اسی حالت میں رجوع یا دوبارہ نکاح نہیں ہو سکتا۔

نوٹ: شریعت نے مرد کو چار شادیوں کی اجازت دی ہے اور یہ مرد کا شرعی حق ہے، لہذا اگر شوہر ایک سے زیادہ بیویوں کے درمیان عدل وانصاف کرنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کی استطاعت رکھتا ہو تو پہلی بیوی کا دوسری بیوی کو طلاق دینے پر شوہر کو بلا وجہ مجبور کرنا ہرگز جائز نہیں، یہ انتہائی ظلم، زیادتی اور کبیرہ گناہ ہے، کسی مسلمان مرودعورت کا گھر اجاڑنے اور میاں بیوی کے درمیان تفریق کرنے کی شریعت میں بہت مذمت بیان فرمائی گئی ہے،  نیز خودکشی کا ارتکاب بھی شرعا حرام اور ناجائز ہے، اس لیے آپ کی پہلی بیوی پر لازم ہے کہ وہ اپنے اس فعل پر اللہ تعالیٰ سے سچے دل سے توبہ واستغفار کرے اور آئندہ کے لیے ایسی قبیح حرکت سے اجتناب کرے۔

[1] یاد رہے کہ اگر کسی مسئلہ کی حنفیہ کے ہاں تصریح نہ ہو، جبکہ دوسرے مذہب میں اس کی صراحت ہو اور وہ مسئلہ حنفیہ کے اصولوں سے بھی متصادم نہ ہو تو ایسی صورت میں دوسرے مذہب پر عمل کرنا جائز ہے ،نیز یہاں نفسِ مسئلہ (اکراہ کی حالت میں تحریری طلاق کا بغیر نیت کے واقع نہ ہونا) میں حنفیہ کا ہی مذہب لیا گیا ہے، البتہ اکراہ کی کچھ تفصیل شافعیہ کے مسلک سے لی گئی ہے۔

حوالہ جات
صحيح البخاري (7/ 43، رقم الحدیث: 5261) دار طوق النجاة:
حدثني محمد بن بشار، حدثنا يحيى، عن عبيد الله، قال: حدثني القاسم بن محمد، عن عائشة،
 أن رجلا طلق امرأته ثلاثا، فتزوجت فطلق، فسئل النبي صلى الله عليه وسلم: أتحل للأول؟
 قال: «لا، حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول»
البحر الرائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (8/ 81) دار الكتاب الإسلامي، بيروت:
والإكراه بحبس الوالدين والأولاد لا يعد إكراها؛ لأنه ليس بإكراه ولا يعدم الرضا بخلاف حبس نفسه وفي المحيط، ولو أكره بحبس ابنه أو عبده على أن يبيع عبده أو يهبه ففعل فهو إكراه استحسانا، وكذا في الإقرار ووجهه أن الإنسان يتضرر بحبس ابنه أو عبده ألا ترى أنه لا يؤثر حبس نفسه على حبس ولده فإن قلت بهذا نفي الأول قلنا لا فرق بين الوالدين والولد في وجه الاستحسان وهو المعتمد كما لا فرق بينهما في وجه القياس وقوله خير بين أن يمضي أو يفسخ تقديره، وإذا زال الإكراه إلى آخره دفعا للضرر عن نفسه.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (7/ 175) دار الكتب العلمية:
وأما بيان أنواع الإكراه فنقول: إنه نوعان: نوع يوجب الإلجاء والاضطرار طبعا كالقتل والقطع
والضرب الذي يخاف فيه تلف النفس أو العضو قل الضرب أو كثر، ومنهم من قدره
 بعدد ضربات الحد، وأنه غير سديد؛ لأن المعول عليه تحقق الضرورة فإذا تحققت فلا معنى لصورة العدد، وهذا النوع يسمى إكراها تاما، ونوع لا يوجب الإلجاء والاضطرار وهو الحبس والقيد والضرب الذي لا يخاف منه التلف، وليس فيه تقدير لازم سوى أن يلحقه منه الاغتمام البين من هذه الأشياء أعني الحبس والقيد والضرب، وهذا النوع من الإكراه يسمى إكراها ناقصا.
الدر المختار مع حاشية ابن عابدين (6/ 129) دار الفكر، بيروت:
(وشرطه) أربعة أمور: (قدرة المكره على إيقاع ما هدد به سلطانا أو لصا) أو نحوه (و) الثاني (خوف المكره) بالفتح (إيقاعه) أي إيقاع ما هدد به (في الحال) بغلبة ظنه ليصير ملجأ (و) الثالث: (كون الشيء المكره به متلفا نفسا أو عضوا أو موجبا غما يعدم الرضا) وهذا أدنى مراتبه وهو يختلف باختلاف الأشخاص فإن الأشراف يغمون بكلام خشن، والأراذل ربما لا يغمون إلا بالضرب المبرح ابن كمال (و) الرابع: (كون المكره ممتنعا عما أكره عليه قبله) إما (لحقه) كبيع ماله (أو لحق) شخص (آخر) كإتلاف مال الغير (أو لحق الشرع) كشرب الخمر والزنا إلا على المذاكير والعين بزازية.
الدر المختار شرح تنوير الأبصار (ص: 603) دار الكتب العلمية، بيروت:
 (خوفها الزوج بالضرب حتى وهبته مهرها لم تصح) الهبة (إن قدر الزوج على الضرب) وإن هددها بطلاق أو تزوج عليها أو تسر فليس بإكراه.
خانية. وفي مجمع الفتاوى: منع امرأته المريضة عن المسير إلى أبويها إلا أن تهبه مهرها فوهبته بعض المهر فالهبة باطلة، لانها كالمكره قلت: ويؤخذ منه جواب حادثة الفتوى: وهي زوج بنته البكر من رجل، فلما أرادت الزفاف منعها الاب، إلا أن يشهد عليها أنها استوفت منه ميراث أمها فأقرت ثم أذن لها بالزفاف فلا يصح إقرارها لكونها في معنى المكرهة، وبه أفتى أبو السعود مفتي الروم.

  محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

13/جمادی الاخری 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے