021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
غلط کام میں ملوث ہونے کے باوجود اس کی نفی پر تعلیقِ طلاق کا حکم
82320طلاق کے احکامطلاق کو کسی شرط پر معلق کرنے کا بیان

سوال

میرا ایک ماموں زاد شاہ گوٹ میں مقبوضہ اراضی کی خرید و فروخت کا کام کرتا ہے۔ جب زمین کے اصل مالکان اس سے کہتے ہیں کہ آپ ناجائز طریقے سے خرید و فروخت میں ملوث ہیں تو وہ کہتا ہے: اگر میں اس خرید و فروخت میں ملوث ہوں تو میری بیوی مجھ پر طلاق ہے۔ یہ بات اس نے میرے سامنے تین مرتبہ سے زیادہ کی ہے اور اس کے علاوہ بھی مختلف مجالس میں کی ہے، جبکہ حقیقت یہی ہے کہ وہ اس خرید و فروخت میں ملوث تھا اور اب بھی ہے۔ اس صورت میں کون سی طلاق واقع ہوگی؟ اور اہل و عیال اور احباب کی کیا ذمہ داری بنتی ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر سوال میں ذکر کردہ تفصیل درست ہے تو مقبوضہ اراضی کی خرید و فروخت میں ملوث ہونے کے باوجود تین مرتبہ مذکورہ الفاظ کہنے کے بعد آپ کے اس ماموں زاد کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوگئی تھیں اور ان کے درمیان حرمتِ مغلظہ ثابت ہوگئی تھی، جس کے بعد  نہ رجوع جائز ہوتا ہے، نہ ہی دوبارہ نکاح ممکن ہوتا ہے؛ اس لیے تین دفعہ مذکورہ الفاظ کہنے کے بعد اس کا مطلقہ بیوی کو اپنے پاس رکھنا جائز نہیں، حرام تھا، جس کی وجہ سے وہ سخت گناہ گار ہوا ہے۔ اس پر لازم ہے کہ توبہ و استغفار کرے اور مطلقہ بیوی سے فورا الگ ہوجائے، مطلقہ کے لیے بھی اسے اپنے اوپر قدرت دینا جائز نہیں، حرام ہے۔ اس شخص کے اہل و عیال اور احباب کی ذمہ داری یہ ہے کہ اسے شرعی مسئلہ سمجھا ئیں اور حرام طریقے سے اپنی مطلقہ بیوی کو ساتھ رکھنے سے باز رہنے کی تاکید کریں۔

 جہاں تک مطلقہ کی عدت کا تعلق ہے تو اگر اس شخص نے تین طلاق واقع ہونے اور بیوی کے حرام ہونے کا علم ہونے کے باوجود اس کو اپنے پاس رکھا اور تین دفعہ یہ الفاظ کہنے کے بعد مطلقہ کو تین ماہواریاں آچکی ہوں تو اس کی عدت گزر چکی ہے، اب وہ آزاد ہے، دوسری جگہ جہاں چاہے شادی کرسکتی ہے۔ اور اگر اس کو تین طلاق واقع ہوجانے اور بیوی کے حرام ہونے کا علم نہیں تھا تو پھر مطلقہ پر آخری ہمبستری کے بعد سے عدتِ وطی (تین ماہواریاں) واجب ہوگی۔

حوالہ جات
القرآن الکریم:                                                                                           
{فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يَتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَنْ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ} [البقرة: 230]
بدائع الصنائع (3/ 26):
وأما الذي يرجع إلى المحلوف عليه وهو الشرط فمنها أن يكون أمرا في المستقبل، فلا يكون التعليق بأمر كائن يمينا، بل يكون تنجيزا، حتى لو قال لامرأته: أنت طالق إن كانت السماء فوقنا يقع الطلاق في الحال.
الفتاوى الهندية (1/ 532):
المطلقة ثلاثا إذا جامعها زوجها في العدة مع علمه أنها حرام عليه ومع إقراره بالحرمة لاتستأنف العدة، ولكن يرجم الزوج، والمرأة كذلك  إذا قالت: علمت بالحرمة، ووجدت شرائط الإحصان. ولو ادعى الشبهة بأن قال: ظننت أنها تحل لي تستأنف العدة بكل وطأة، وتتداخل مع الأولى إلا أن تنقضي الأولى، فإذا انقضت الأولى وبقيت الثانية والثالثة كانت هذه عدة لوطء لا تستحق النفقة في هذه الحالة. وهذا الذي ذكرنا إذا جامعها مقرا بطلاقها، وأما إذا جامعها منكرا لطلاقها، فإنها تستقبل العدة كذا في الذخيرة.
الفتاوى الهندية (1/ 475):
سئل شيخ الإسلام يوسف بن إسحاق الخطي عمن طلق امرأته ثلاثا وكتم عنها وجعل يطؤها فمضت ثلاث حيض ثم أخبرها بذلك هل يجوز لها أن تتزوج بزوج آخر؟ قال: لا؛ لأن الوطء جرى بينهما بشبهة النكاح وإنه موجب للعدة، إلا إذا كان من آخر وطئها جرت ثلاث حيض. قيل له: فإن كانا عالمين بالحرمة مقرين بوقوع الحرمة الغليظة ولكن يطؤها فحاضت ثلاث حیض ثم أرادت أن تتزوج بزوج آخر؟ قال: يجوز نكاحها؛ لأنهما إذا كان مقرين بالحرمة كان الوطء زنا، والزنا لا يوجب العدة، ولا يمنع من أن تتزوج، وبه نأخذ، إلا إذا كانت حبلى على قول أبي يوسف ومحمد رحمهما الله تعالى حتى تضع حملها وعلى قول أبي حنيفة رحمه الله تعالى يجوز، كذا في التتارخانية.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

      16/جمادی الآخرۃ/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے