021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بعض ورثاء کو ہبہ کردہ زمین میں بقیہ ورثاء کے حصوں کا حکم
80436ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

ہمارے والد محمد افضل صاحب کا 2013 میں انتقال ہوا، جن کے ورثاء میں ایک بیوہ، ایک بیٹی اور 5 بیٹے ہیں۔ والد صاحب کی وفات کے بعد 10 مرلہ زمین جو کہ اڈیالہ روڈ پر تھی، دو بھائیوں محمد زبیر اور ظفر اللہ کو اتفاق رائے کے ساتھ دینے کا فیصلہ ہوا، جسے بیچ کر دونوں نے رقم وصول کر لی۔ اس زمین کے علاوہ ایک اور 10 مرلہ زمین تھی جو فیصلے کے مطابق ضیاء اللہ اور امان اللہ نے اپنے نام کروالی کیونکہ اس زمین کا فیصلہ والد صاحب کی حیات میں ہی ہوگیا تھا کہ یہ زمین ضیاء اللہ اور امان اللہ کی ہے، اور اس  پر والدہ اور تمام  بھائیوں نےعدالت میں ان کے حق میں بیانات قلم بند بھی کروائے۔

نوٹ:اڈیالہ کی زمین جب فروخت کی گئی تو اس کی مالیت 15000 روپے فی مرلہ تھی جبکہ دوسرے پلاٹ کی قیمت 250000 روپے فی مرلہ تھی۔

اب ظفر اللہ کا موقف یہ ہے کہ: چونکہ یہ زمین والد صاحب کی وفات کے بعد منتقل کی گئی ہے، لہٰذا اس میں میرا  بھی شرعی حصہ اور حق موجود ہے، جبکہ والدہ اور اور دوسرے بہن بھائیوں کا ظفر اللہ کو یہ کہنا ہے کہ: آپ نے والد صاحب سے کاروبار کے لیے 50000 روپے بھی لیے، زیور کی صورت میں بھی آپ کے پاس 4 تولے سونا موجود ہے جو کہ والد صاحب نے ہی آپ کو بنوا کر دیا۔ پھر اڈیالہ روڈ کی زمین میں سے بھی آپ نے 5 مرلہ کی قیمت و صول کی ہے جبکہ باقی تمام بھائیوں نے اپنی شادی کےبمعہ زیورات تمام اخراجات خود برداشت کیے ہیں، اور اس دس مرلہ زمین کا فیصلہ والد صاحب کی حیات میں ہی ہوگیا تھا جس کی تصدیق اور گواہی تمام افرادِ خانہ کرتے ہیں۔ لہٰذا طے یہ ہوا کہ شرعی احکامات کو مدِنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا جائے گا اور تمام افراد اس فیصلے کو تسلیم کریں گے اور اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہوگا۔ لہٰذا راہنمائی فرمائیں کہ کیا ظفر اللہ کا دس مرلے زمین میں حق بنتا ہے؟ اگر بنتا ہے تو رقم کس حساب سے دی جائے گی؟ قیمت خرید کے اعتبار سے یا انتقال زمین کے وقت کی قیمت یا موجودہ قیمت کے اعتبار سے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

یاد رہے کہ اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنی اولاد کو اپنی جائیدادمیں سے کچھ دے تو یہ ہبہ کے حکم میں ہے اور عام حالات میں اولاد کے درمیان ہبہ کرنے میں برابری مستحب ہے ،یعنی سب کو ،چاہے لڑکا ہو یا لڑکی برابر حصہ دیا جائے، بغیر کسی معقول وجہ ترجیح کے، محض نقصان پہنچانے کی غرض سے بعض کو کم اور بعض کو زیادہ دینا درست نہیں،البتہ اگرکمی بیشی کی کوئی معقول وجہ ہو،جیسےاولاد میں سے کسی کا زیادہ تنگدست ہونا، زیادہ عیالدار ہونا،بعض کا خدمت گار ہونا وغیرہ، توایسی صورت میں جو زیادہ تنگدست،عیالدار یا خدمت گار ہو اسے زیادہ دیا جاسکتا ہے،لیکن کسی کو بالکل محروم کردینا جائز نہیں۔

نیز ہبہ کے تام ہونے کے لئے ضروری ہے کہ جو چیز جسے ہبہ کی جائے وہ اس کے قبضے میں اس طور پر دی جائے کہ اس کو مالکانہ تصرف کرنے میں کوئی رکاوٹ اور پابندی حائل نہ ہو۔

صورتِ مسئولہ میں آپ کے والد نے جو زمین  ضیاء اللہ اور امان اللہ  کو اپنی زندگی میں دی، اگر والد نے ان دونوں کو مالکانہ تصرف کا حق دے دیا تھا اور ان دونوں کو اس زمین کو استعمال کرنے یا کسی بھی قسم کا فائدہ حاصل کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی تو یہ ہبہ تام ہو چکا ہے، اگر چہ زمین والد کی وفات کے بعد اپنے نام کروائی ہو۔ اب یہ ز مین صرف ضیاء اللہ اور امان اللہ کی ہے،  ظفر اللہ یا کسی  اور کا اس زمین میں کوئی حصہ نہیں  اور نہ ہی مطالبہ کرنے کا حق ہے، لیکن اگر اس طور پر باقاعدہ قبضہ نہیں کرایا تھا بلکہ صرف زبانی یا تحریری فیصلہ کیا تھا تو یہ زمین بھی ترکہ کا حصہ شمار ہوگی اور میراث کے حصہ میں حساب ہوگی۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 696):
"وفي الخانية لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم"
مجلة الأحكام العدلية (ص: 162):
( المادة 837 ) تنعقد الهبة بالإيجاب والقبول وتتم بالقبض
( المادة 843 ) إيجاب الواهب إذن دلالة بالقبض
مجلة الأحكام العدلية (ص: 166):
"( المادة 866 ) إذا وهب شخص شيئا لأصوله وفروعه أو لأخيه أو لأخته أو لأولادهما أو لأخ وأخت أبيه وأمه فليس له الرجوع بعد الهبة"
شرح المجلة لرستم باز(ص:462):
"(المادة:837) تنعقدالهبة بالإيجاب والقبول وتتم بالقبض الكامل لانها من التبرعات ، والتبرع لا يتم الا بالقبض"

احمد الر حمٰن

دار الافتاء، جامعۃ الرشید کراچی

22/ذوالقعدہ/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احمد الرحمن بن محمد مستمر خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے