82440/63 | پاکی کے مسائل | نجاستوں اور ان سے پاکی کا بیان |
سوال
اس بات کی وضاحت بھی کردیں کہ منی کی ناپاکی چاہے ایک درہم سے کم ہو یا زیادہ دونوں کا ایک ہی حکم ہوگا ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
منی چونکہ نجاست غلیظہ ہے اس لیے اگر کپڑوں پرمنی لگی ہو اور ایک درہم کے بقدر یا اس سےکم ہو تو وہ معاف ہے ۔یعنی اگرآپ نے ایسےکپڑوں میں نماز ادا کی تونماز کراہت کے ساتھ درست ہوجائےگی، تاہم اس صورت میں بھی کپڑوں کودھولینا چاہیے، اور اگر ایک درہم کی مقدارسے زیادہ ہو تو اس کو دھونا فرض ہے اورایسے کپڑوں میں نماز نہ ہوگی۔یادرہے کہ اگر نجاست غلیظہ پانی میں گرجائے یا پانی میں مل جائے توپانی ناپاک ہوجائے گا خواہ وہ نجاست ایک قطرہ ہی کیوں نہ ہو۔
حوالہ جات
وهي نوعان: (الأول) المغلظة وعفي منها قدر الدرهم ،واختلفت الروايات فيه.والصحيح أن يعتبر بالوزن في النجاسة المتجسدة وهو أن يكون وزنه قدر الدرهم الكبير المثقال وبالمساحة في غيرها وهو قدر عرض الكف. هكذا في السراج الوهاج ناقلاعن الإيضاح: كل ما يخرج من بدن الإنسان مما يوجب خروجه الوضوء أو الغسل فهو مغلظ كالغائط والبول والمني والمذي والودي والقيح والصديد والقيء إذا ملأ الفم .كذا في البحر الرائق .
) الفتاوى الهندية:1/ 46،45)
(وعفا) الشارع (عن قدر درهم) وإن كره تحريما، فيجب غسله، وما دونه تنزيها فيسن، وفوقه مبطل (وهو مثقال) عشرون قيراطا (في) نجس (كثيف) له جرم (وعرض مقعر الكف) وهو داخل مفاصل أصابع اليد (في رقيق من مغلظة كعذرة) آدمي، وكذا كل ما خرج منه موجبا لوضوء أو غسل مغلظ. (رد المحتار ط الحلبي:1/ 316،318)
هذا إذا كان الانتضاح على الثياب والأبدان أما إذا انتضح في الماء فإنه ينجسه ولا يعفى عنه؛ لأن طهارة الماء آكد من طهارة الأبدان والثياب والمكان. كذا في السراج الوهاج. ولو كان المنتضح مثل رأس المسلة منع. كذا في البحر الرائق.(الفتاوى الهندية:1/ 46)
رفیع اللہ
دار الافتاءجامعۃ الرشید کراچی
18 جمادی الأخری1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | رفیع اللہ غزنوی بن عبدالبصیر | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |