021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مضاربت کے پیسوں کو آگے کسی اورکمپنی میں مضاربت پر دینا
82458مضاربت کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں محمد نعمان لوگوں سے رقم لے کر آگے دوسری کمپنیوں کو کاروبار کے لیے دیتا ہوں اور کمپنی والے ہر مہینہ غیر متعین رقم منافع کے طور پر دیتے ہیں(تنقیح:کمپنی کو حاصل ہونے والے نفع میں سے جو حصہ ملتا ہےوہ تو فیصدی طور پر 50% متعین ہے لیکن اس سے جو رقم بنتی ہےوہ کم زیادہ ہوتی ہے)۔اب سائل اس منافع میں آدھی رقم اگر خود رکھ کر آدھی مالک کو دے تو یہ جائز ہے یا نہیں ؟یا اگر میں بطور کمیشن اس میں سے متعین کرکے رکھ لوں تو یہ بھی جائز ہے یا نہیں؟کوئی بھی جائز صورت ہو تو بتادیں،اگر کمیشن لینا جائز ہے تو اس کی کی حیثیت ہوگی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں لوگوں سے رقم لے کر آگے کمپنی میں انویسٹ کرنے کو فقہ اسلامی کی اصطلاح میں مضاربت کہا جاتاہے،اس میں آپ کی حیثیت ُمضارِب کی اور پیسوں کے مالک کی حیثیت ربُّ المال کی ہے۔ مضاربت میں مضارِب کے لیے آگے کسی اور شخص کو مضاربت پر مال دینا بھی جائز ہے۔مذکورہ مضاربت کا عقد جائز ہونے کے لیے درج ذیل شرائط کا ہونا ضروری ہیں: -1جس کاروبار میں پیسے انویسٹ کررہے ہوں وہ کاروبار حلال ہو۔ -2 نفع کی تقسیم فیصدی طور پر ہو،متعین رقم کی صورت میں نفع طے کرنے کو شریعت نے ناجائز قرار دیا ہے،اس سے مضاربت کا عقد فاسد ہوجاتاہے۔ -3جن کمپنیوں میں آپ لوگوں کے رقوم لگاتے ہیں ان کا واقعی اور حقیقی کاروبار موجود ہو اور اتنے پیمانے پر ہو جس پیمانے پر وہ لوگوں سے رقوم جمع کرتی ہیں،یعنی جو رقم آپ جمع کرتے ہیں وہ مذکورہ کمپنی کو حکومت کی طرف سے منظور شدہ سرمایہ (Authorized Capital) کے اندر اندر ہوں،کیونکہ آجکل بہت ساری کمپنیاں مضاربت کا طریقہ دھوکہ دہی اور لوگوں کی رقم ہڑپ کرنے کے لیے بھی استعمال کررہی ہیں۔ منافع کی تقسیم کی ایک جائز صورت یہ ہے کہ آپ سب سے پہلے رقم کے مالک کےساتھ اس طور پر فیصدی صورت میں ( نا کہ متعین رقم کی صورت میں) نفع طے کریں کہ مجھے جو نفع کمپنی کی طرف سے ملے گا اس میں سے اتنا فیصد آپ کا ہوگا،اس کے بعد آگے کمپنی والوں کے ساتھ بھی فیصدی طور پر منافع طے کریں،کمپنی سے جو آمدنی ہوگی اس کو مالک کےساتھ مقرر کردہ فیصدی اعتبار سے تقسیم کردیں۔ واللہ سبحانہ و تعالی اعلم

حوالہ جات
(الھدایة :ج:6 ص:172 ،الناشر:مکتبة البشری،باکستان ) "ولا یضارب إلا أن یأذن لہ رب المال،أو یقول لہ:اعمل برأیک لأن الشيء لا يتضمن مثله لتساویھما فی القوة ، فلا بد من التنصيص عليه، أو التفويض المطلق إليه ،وکان کالتوکیل، فإن الوکیل لا یملک أن یوکل غیرہ فیما وکلہ بہ إلا إذا قیل لہ: اعمل برأیک." (مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر :ج: 7 ، ص : 8و27) "( وليس له ) أي للمضارب ( أن يضارب ) مال المضاربة لآخر ( إلا بإذن رب المال ) صريحا ( أو بقوله له ) أي للمضارب ( اعمل برأيك ) لأن الشيء لا يتضمن مثله ،فلا بد من التنصيص عليه، أو التفويض المطلق إليه كالوكيل لا يملك التوكيل إلا بقول الأصيل اعمل برأيك...( وإن دفع ) المضارب لآخر مضاربة ( بالنصف ) في هذه الصورة ( فللثاني نصف ) الربح ( ولكل من ) المضارب ( الأول ورب المال ربع ) الربح لأن الأول شرط للثاني نصف الربح ،وذلك مفوض إليه من جهة رب المال، فيستحقه، وقد جعل رب المال لنفسه نصف ما ربح الأول، ولم يربح إلا النصف، فيكون بينهما ."

ابرار احمد صدیقی
دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی
۲۴/جمادی الثانیة/ ١۴۴۵ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

ابراراحمد بن بہاراحمد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے