82517 | زکوة کابیان | ان چیزوں کا بیان جن میں زکوة لازم ہوتی ہے اور جن میں نہیں ہوتی |
سوال
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ میں کہ ہم ہر مہینہ دس ہزار بی سی جمع کرتے ہیں اور پوری بی سی تین لاکھ کی ہے،تیسری نمبر پر میری بی سی نکلی ہے،جس میں میری طرف سے صرف بیس ہزار جمع ہوئے تھے،میرے پاس اور بھی اموال زکوة ہے،تو کیا اس بی سی کی رقم کو ان تمام اموالِ زکوة کے ساتھ ملا کر زکوة ادا کی جائے گی؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
واضح رہے کہ بی سی کی حیثیت شرعا قرض کی ہے،بی سی جمع کرنے والا قرض خواہ ہے اور جسے پہلے بی سی مل جائے وہ قرض دار ہے۔بی سی میں آدمی اسی رقم کا مالک ہوتا ہے جو اس نے جمع کروائی ہو،اس سے زائد رقم جو اس کو ملی ہو اس کی حیثیت قرض کی ہے۔قرض کا اصول یہ ہے کہ قرضدار پر قرض کی رقم کی زکوة نہیں ہوتی ،بلکہ اس کے پاس موجودہ کل مال سے اتنی رقم منہا ہوتی ہے ،بقیہ رقم اگر نصاب تک پہنچے تو اس پر زکوة فرض ہوتی ہے،جبکہ قرض خواہ پر اس کے قرض کے بقدر زکوة فرض ہوتی ہے۔لہذا صورت مسئولہ میں جو رقم آپ نے بی سی کے لیے جمع کرائی ہے اس کی زکوة دیگر اموالِ زکوة کے ساتھ ملا کر ادا کرنا واجب ہے، لیکن جو رقم آپ کو جلدی ملی ہے اس پر زکوة واجب نہیں،اس کو زکوة ادا کرتے وقت منہا کیا جائے گا۔
حوالہ جات
(الفتاوی التاتارخانیة: ج :2ص:287 )
"ما یمنع وجوب الزکوة أنوا ع منھا: الدین. قال أصحابنا: کل دین لہ مطالب من جھة العباد یمنع وجوب الزکاة،وفی الخانیة :کالقرض، وثمن المبیع،وضمان المتلفات."
ابرار احمد صدیقی
دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی
۲۸/ جمادی الثانیة/ ١۴۴۵ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | ابراراحمد بن بہاراحمد | مفتیان | محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب |