021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بعض ورثا ءکے انتقال کے بعد حق میراث کا مطالبہ
82415میراث کے مسائلمناسخہ کے احکام

سوال

زید کا انتقال ہوا ،اور کچھ جائدادیں  چھوڑیں ،زید  کی کل چار بیٹیاں  اور ایک  بیٹا  ہے  ،ان میں  ایک بیٹی کا زید کی زندگی  میں انتقال ہوا  ،اور  زید کے انتقال کے وقت   تین بیٹیاں   اور ایک بیٹا   حیات تھے ،زید کے  انتقال  کے بعد   اس کے بیٹے عمر نے   جائداد کا کچھ  حصہ فروخت  کیا  اس  میں  سے اپنی بہنوں کو ٹھوڑی ٹھوڑی رقم دی، یعنی ان کے حصے  سے کم  دیا ،  پھر اپنی بہنوں  سے  ایک  اسٹامپ   پر انگوٹھے   لگوا لیا   کہ ان کو   حصے  مل گئے ایسے میں  اس  زمین کے علاوہ    والد کی  پوری جائداد  پر قبضہ کرلیا ،اب عمر  کا بھی انتقال  ہوچکا ہے ،اسکے بعد   عمر کی بہنیں   عمر کے  بیٹوں  اپنے والد  کی میراث تقسیم کرکے حصے دینے کا مطالبہ کررہی   ہے ۔  سوال  یہ ہے    کہ   کیا بہنیں   اپنے بھائی کے انتقال کے بعد   اپنے وا  لد کی میراث   تقسیم کرنے کا مطا لبہ کرسکتی ہے ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شریعت مطہرہ  نے میت  کے  لڑکے  اور لڑکی   دونوں  کو میت کی  میراث کا حقدار   قرار دیا  ہے ، والد  کے انتقال کے بعد    لڑکے کا والد کے ترکے  پر قبضہ کرکے بہنوں کو ان کے حق میراث سے محروم  کردینا   ظلم اوربہت بڑا گناہ ہے ،اس پر  احادیث میں سخت وعید آئی ہے ، رسول اللہ صلی اللہ  علیہ وسلم کا  ارشاد  ہے ، جس نے کسی وارث کو میراث کے حق سے  محروا کردیا اللہ تعالی  اس کو جنت کے حق سے محروم کردے گا۔

لہذا مسئولہ  صورت  میں اگر  واقعة  نے  زید کے بیٹے  عمر نے  بہنوں  کو  تھوڑی      ٹھوڑی   رقم دے کر      میراث   کے مکمل   حصے سے محروم رکھاتھا ، تو ایسے  میں بہنوں   کو حق حاصل  ہے   کہ میراث   میں اپنے حق کا مطالبہ کریں ، اگر بھائی کا انتقال ہوچکا ہے تو اولاد  جواپنے  داد کی میراث  پر  قابض   ہیں ان سے  تقسیم میراث کا  مطالبہ کیاجاسکتا  ہے ،اور زید  کی اولاد  کے ذمے لازم  ہے کہ تمام  ترکہ  کی از سر نوتقسیم کریں،  اور تمام  حصے  داروں کو  ان کا حق دیدیں ،اورتقسیم  کی  صورت یہ ہوگی  کہ والد مرحوم  زید نےاپنے انتقال  کے وقت   منقولہ غیر  منقولہ جائداد ، سونا  چاندی  ، نقدی  اور چھوٹا  بڑا  جو بھی سامان اپنی ملک میں  چھوڑا  ہے   سب مرحوم   کا ترکہ ہے ، اس میں سے اولا   مرحوم کے کفن ودفن  کا متوسط خرچہ نکالا جائے ، اس کے بعد مرحوم کے ذمے کسی کا قرض  ہو  تو وہ  ادا کیاجائے ،اس کے بعد  اگر مرحوم  نے کسی  غیر وارث کے  حق میں کوئی جائز وصیت کی  ہو  توتہائی مال کی حد تک اس  پر  عمل کیاجائے ،اس کے بعد کل  مال کو مساوی حصوں میں تقسیم کرکے   زید کا  لڑکا عمر کے دو حصے اور تینوں  لڑکیوں میں  سے  ہر ایک کو  ایک ایک حصہ  دیاجائے ۔پھر  عمر  مرحوم کو ملنے والے دو حصے   عمر   کے ورثاء میں    شرعی قاعدے کے مطابق   تقسیم   کئے جائینگے۔

حوالہ جات
لرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا} [النساء: 7]
مشكاة المصابيح للتبريزي (2/ 197)
وعن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة " . رواه ابن ماجه   

احسان اللہ شائق عفا اللہ عنہ    

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

۲۳ جمادی الثانیہ  ١۴۴۵ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے