021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیٹےنےوالدکےمکان میں مرمت کروائی تووہ مکان اس کاذاتی ہوگا؟
82490میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

السلام علیکم!وراثت کے مسائل اور تقسیم کے سلسے میں آپ سے رجوع کیا ۔ ہم سگی چار بہنیں اور ایک بھائی ہیں، ایک بڑا بھائی بھی ہے جو کہ والد کے پہلے گھر سے ہے ،میرے والد کا گھر ضلع ڈیرہ غازی خان میں ہے، والد مرحوم ہیڈ ماسٹر تھے اور بھائی ایلیٹ فورس میں ۔ 2014 میں میرے بھائی کی شہادت ہوگئ۔ والد کے وقت میں وہ گھر پرانے طرز پر بنا  ہوا تھا،پھر جب بھائی کی جاب ہوئی تو انہوں نے تھوڑے تھوڑے عرصے میں اس کی مرمت کروالی۔ بھائی کی تین بیٹیاں ہیں ، شہادت سے ایک سال قبل بھائی نے تین بہنوں سے (جن میں سے دو شادی شدہ اور ایک کنواری تھی،وہ تینوں وہیں رہائش پذیرتھیں) دستخط لےلیے ۔ میں چونکہ کراچی میں  تھی، اس لیے کچھ مسئلےمسائل کی وجہ سے نہ جاسکی اور بھائی کی شہادت ہوگئ اوردستخط ادھورے رہ گئے،جس وقت بھائی نے دستخط لیے تو انہوں نے کہا تھا کہ ( میں تم سب کوحصہ  دوں گااور ایک ایک کرکے فارغ کر دوں گا) بھائی کو  سب نے اپنی رضامندی سے دستخط کرکےدیے تھے(اور میں نے دستخظ کرنے تھے) انہی دنوں میری والدہ کو جو اُن کا حصہ ملا ، وہ ہم بہنوں میں تقسیم ہونا تھا،تووالدہ  نےجذباتی فیصلہ کیااوروہ بھائی کی تینوں بیٹیوں کےنام کردیا،جس پربھابھی نےکہاتھاکہ(میراایمان ہے،اس میں سے میں تم بہنوں  کو دوں گی) مگر وہ اب انکار کرتی ہیں ۔

 جو ہمارے والد کا گھر ہے اُس میں سےبھی نہیں دیتی ، جن بہنوں نے دستخط دے دیئے انہیں تو صاف انکار کرتی ہیں کہ تم لوگ دستخط کر چکی ہو،تمہاراحصہ نہیں بنتااور جو میرا حصہ  ہے اُس میں بھی کوتاہی کر رہی ہیں ۔ بھائی کی شہادت کو دس سال کا عرصہ گزر گیا والدہ کو ڈیڑھ سال ہو گیا، بھائی کی ماہانہ تنخواہ جوبھابھی کوہرماہ باقاعدگی سےملتی ہے( ستر ہزارروپے) ہے اور جائیداد میں بھی صرف وہی گھر نہیں جس میں رہائش پذیر ہیں، اس کے علاوہ  دو تین مکان بھی ہیں،وہ کہتی  ہیں کہ تم چاروں دودود لاکھ لے لو اور جو میرے دستخط رہ گئے وہ دے دو)۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکرکردہ تفصیل کےمطابق چونکہ گھراصل میں والدصاحب کی ملکیت تھا،بیٹےنےاس میں مزیدتعمیروغیرہ کی ہےتوبیٹےکی مزیداس میں خرچہ وغیرہ کرنےسےشرعاوہ بیٹےکی ملکیت نہیں  ہوا،بلکہ والدہی کی ملکیت شمار ہوگااوروالدکی وفات کےوقت موجود ورثہ میں میراث کےمطابق تقسیم ہوگا۔(اس صورت میں شہید بیٹےکاآپ بہنوں سےدستخط وغیرہ لینےکاشرعاکوئی اعتبارنہیں ہوگا)

ہاں اگروالدنےاپنی زندگی میں اپنےبیٹےکوہبہ  کردیاہواوربیٹےکوباقاعدہ قبضہ وغیرہ بھی دےدیاہوتواس صورت میں یہ گھربیٹےکاذاتی ہوگا،سوال میں چونکہ اس کی وضاحت نہیں کہ والدنےبیٹےکو ہبہ کرکےقبضہ میں دیاتھایانہیں ،اس لیےموجودہ صورت میں گھروالدکی ہی ملکیت شمارہوگا۔

اس صورت میں بھابھی کااپنی شوہرکی جائیداد(جوکہ حقیقت میں ان کی ذاتی نہیں تھی)پرقبضہ کرنااورشوہرکی بہنوں کوان کاحصہ نہ دیناشرعاناجائزہوگا،بھابھی کوشرعی مسئلہ سمجھا ناچاہیےتاکہ وہ اس کواپناشرعی حق نہ سمجھے۔

والدہ نے جواپناحصہ اپنی پوتیوں کو دیاہے،اس کابھی حکم یہ ہوگاکہ اگر والدہ نےاپنی زندگی میں اپنی تینوں پوتیوں کوحوالہ کرکےمالک بنادیاہوتوپھریہ پوتیوں کاذاتی شمار ہوگا،اس میں میراث وغیرہ کےاحکام جاری نہیں ہونگے،اوراگرصرف زبانی کہاتھا،عملا پوتیوں کو حصہ حوالہ کرکےقبضہ میں نہیں دیاتو ایسی صورت میں یہ پوتیوں کانہیں ہوگا،بلکہ والدہ کی میراث ہوگی اور والدہ کی میراث چونکہ ان کی وفات کےبعد بیٹیوں میں تقسیم ہوگی ،تووراثت کےحصوں کےمطابق یہ حصہ بھی بیٹیوں میں تقسیم ہوگا۔

حوالہ جات
۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی

24/جمادی  الثانیہ     1445ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے