021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
غسل میت ،نماز جنازہ اور تدفین کے احکام
82200جنازے کےمسائلجنازے کے متفرق مسائل

سوال

نماز جنازہ پڑھانے سے لے کر تدفین وغیرہ کی مکمل تفصیل بتا دیں۔  نیز غسل میت کا طریقہ بھی بتا دیں۔نماز جنازہ پڑھانے سے لے کر تدفین وغیرہ کی مکمل تفصیل بتا دیں۔  نیز غسل میت کا طریقہ بھی بتا دیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

میت کو غسل دینا اور دفن کرنا عملا سیکھنے کی چیزیں ہیں۔اس کی بہتر صورت تو یہ ہے کہ ان امور کو جاننے والے شخص سے بالمشافہ سیکھ لیں۔تاہم غسل میت،جنازہ اور تدفین  کا مختصر طریقہ یہاں بیان کیا جا رہا ہے۔بقیہ تفصیلات کے لیے ڈاکٹر عبد الحي عارفی  رحمۃ اللہ علیہ کی  کتاب " احکام میت " ملاحظہ فرمائیں۔

غسل میت:  میت کو غسل  دینے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ میت کو پہلے خوشبو سے دھونی دیے گئے تختے پر لٹا کرپہنے ہوئے کپڑے اتار کر کوئی موٹی چادر ڈال دی جائے،تاکہ ستر نظر نہ آئے۔پھر اس کا پہلے وضوء کرا دیں اور سر کو اچھی طرح دھو لیں۔پھر میت کو پہلے بائیں اور پھر دائیں کروٹ لٹا کر بیری کے پتوں میں پکایا ہوا  نیم گرم پانی تین دفعہ سر سے پیر تک ڈالیں۔پھر سارا بدن خشک کر کےسر  اور داڑھی پر عطر  لگا دیں ۔پیشانی،ناک دونوں ہتھیلیوں اور گھٹنوں پر کافور مل کر کفن پہنا دیں۔

نماز جنازہ :  اس کا مسنون طریقہ  یہ ہے کہ میت کو آگے رکھ کر نماز جنازہ کی نیت کر کے تکبیر تحریمہ کے بعدسجانک اللهم آخر تک پڑھیں۔ اس کے بعد پھر ایک بار اللہ اکبر کہیں ،مگر اس مرتبہ ہاتھ نہ اٹھائیں۔ اس کے بعد درود شریف پڑھیں ۔پھر ایک مرتبہ اللہ اکبر کہیں اور میت کے لیے دعا کریں۔ جب دعا پڑھ چکیں تو پھر ایک مرتبہ تکبیر کے بعد ہاتھ کھول دیں اور سلام پھیر دیں۔ نماز جنازہ امام اور مقتدی کے لیے یکساں ہے فرق صرف یہ ہے کہ امام تکبیریں اور سلام بلند آواز میں کہے گا اور مقدی آہستہ آوازسے کہے گا۔

تد فين كا طریقہ : جنازہ قبر سے قبلہ کی جانب رکھا جائے اور اتارنے والے قبلہ روہو کر میت کو اٹھا کر قبر میں رکھ دیں۔ میت کو قبر میں رکھ کر داہنے پہلو پر اس کو قبلہ رو کر دینا مسنون ہے اور اس میت کی پیٹھ کی طرف مٹی یا اس کے ڈھیلے رکھدیں تاکہ میت داہنی کروٹ پر قائم رہے۔ قبر میں رکھ دینے کے بعد کفن کی وہ گرہ جو کھل جانے کے خوف سے دی گئی تھی، اس کو کھول دیا جائے۔اس کے بعد کچی اینٹوں سے بند کردیں۔ جب میت کو قبر میں رکھ چکیں تو جس قدر مٹی اس کی قبر سے نکلی ہو وہ سب اس پر ڈال دیں۔ مٹی ڈال دینے  کے بعد قبر پر پانی چھڑک دینا مستحب ہے۔

حوالہ جات
قال العلامۃ الحصكفي رحمه الله تعالى :  (والصلاة عليه) صفتها (فرض كفاية) بالإجماع فيكفر منكرها؛لأنه أنكر الإجماع ،قنية (كدفنه) وغسله وتجهيزه، فإنها فرض كفاية. (رد المحتار :2/ 207)
قال العلامة المرغيناني رحمه الله تعالى : وإذا أرادوا غسله وضعوه على سرير ؛لينصب الماء عنه ، وجعلوا على عورته خرقة؛ إقامة لواجب الستر، ويكتفى بستر العورة الغليظة، هو الصحيح تيسيرا ،ونزعوا ثيابه؛ليمكنهم التنظيف ، ووضئوه من غير مضمضة واستنشاق ؛لأن الوضوء سنة الاغتسال ،غير أن إخراج الماء منه متعذر فيتركان. ثم يفيضون الماء عليه؛ اعتبارا بحال الحياة ، ويجمر سريره وترا ؛ لما فيه من تعظيم الميت ،وإنما يوتر؛لقوله صلى الله عليه وسلم:" إن الله وتر يحب الوتر ."ويغلى الماء بالسدر أو بالحرض؛مبالغة في التنظيف ، فإن لم يكن فالماء القراح ؛ لحصول أصل المقصود ، ويغسل رأسه ولحيته بالخطمي ؛ ليكون أنظف له ، ثم يضجع على شقه الأيسر، فيغسل بالماء والسدر حتى يرى أن الماء قد وصل إلى ما يلي التخت منه ،ثم يضجع على شقه الأيمن فيغسل، حتى يرى أن الماء قد وصل إلى ما يلي التخت منه ؛ لأن السنة هو البداءة بالميامن . ثم يجلسه ويسنده إليه ويمسح بطنه مسحا رفيقا ؛ تحرزا عن تلويث الكفن ، فإن خرج منه شيء غسله ،ولا يعيد غلسه ولا وضوءه ؛ لأن الغسل عرفناه بالنص، وقد حصل مرة . ثم ينشفه بثوب ؛ كيلا تبتل أكفانه ، ويجعله أي الميت في أكفانه، ويجعل الحنوط على رأسه ولحيته ،والكافور على مساجده. ( الهداية : 283/1 )
قال العلامۃ الحصكفي رحمه الله تعالى : وهي( أربع تكبيرات) كل تكبيرة قائمة مقام ركعة، (يرفع يديه في الأولى فقط) وقال أئمة بلخ: في كلها (ويثني بعدها) وهو سبحانك اللهم وبحمدك (ويصلي على النبي ) كما في التشهد ،(بعد الثانية)؛ لأن تقديمها سنة الدعاء (ويدعو بعد الثالثة) بأمور الآخرة،والمأثور أولى...... (ويسلم) بلا دعاء (بعد الرابعة) تسليمتين ناويا الميت مع القوم، ويسر الكل إلا التكبير.
قال العلامۃ الحصكفي رحمه الله تعالى يستحب أن (يدخل من قبل القبلة) بأن يوضع من جهتها، ثم يحمل فيلحد (و) أن (يقول واضعه: بسم الله، وبالله، وعلى ملة رسول الله ﷺ،ويوجه إليها) وجوبا، وينبغي كونه على شقة الأيمن، ولا ينبش ليوجه إليها (وتحل العقدة) للاستغناء عنها (ويسوي اللبن عليه والقصب لا الآجر) المطبوخ والخشب لو حوله، أما فوقه فلا يكره. (الدر المختار شرح تنوير الأبصار: 123/1)

ہارون عبداللہ                                                                                                                                                               دارالافتاء، جامعۃ الرشید ،کراچی

 03 جمادی الاولی 1445ہجری

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

ہارون عبداللہ بن عزیز الحق

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے