021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مسجد کی زمینیں چھڑانے کے لیے رشوت میں سود کے پیسے دینا
82532جائز و ناجائزامور کا بیانرشوت کا بیان

سوال

"ویسما" جامع مسجد کے لیے دو صاحبِ خیر حضرات نے اپنی اپنی زمینیں وقف کی تھیں، اس وقت مسجد کے ٹرسٹ نے ان زمینوں کو مسجد کے نام نہیں کروایا تھا ، اب ان صاحبِ خیر حضرات کا انتقال ہوچکا ہے، ان کے ورثا وقف کا انکار کرتے ہیں اور ایک پارٹی تو اس کو بیچنے کے چکر میں ہے، مسجد کے ذمہ دار ان زمینوں کو مسجد کے نام پر کروانا چاہتے ہیں تو مجبورا اس کے لیے رشوت دینی پڑ رہی ہے۔  

سوال یہ ہے کہ اگر ان زمینوں کو مسجد کے نام کروانے کی کوئی اور صورت ممکن نہ ہو اور مجبوری کی وجہ سے رشوت دینا پڑے تو اس رشوت میں سود کے پیسے دے سکتے ہیں ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ بینکوں سے ملنے والے سود کی رقم ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کرنا واجب ہے۔ صدقہ کرنے میں بہتر یہ ہے کہ یہ رقم کسی مستحقِ زکوۃ کو مالک بنا کر دی جائے، لیکن کسی ایسے رفاہی کام میں لگانے کی بھی گنجائش ہے جس میں تملیک نہ ہوتی ہو۔ اگر سود بینک سے نہ لیا گیا ہو، بلکہ کسی شخص کو قرض دے کر اس سے لیا گیا ہو تو اس صورت میں سود لینے والے پر لازم ہے کہ سود کی رقم دینے والے کو یا اس کی موت کی صورت میں اس کے ورثا کو واپس کردے، اس کو بغیر نیتِ ثواب صدقہ کرنا جائز نہیں، البتہ اگر سود دینے والا اور اس کے ورثا موجود نہ ہوں یا معلوم نہ ہوں اور ان تک رسائی ممکن نہ ہو تو پھر اس رقم کو بھی بلانیتِ ثواب صدقہ کرنا لازم ہوتا ہے۔

جہاں تک سود کی رقم بطورِ رشوت دینے کا تعلق ہے تو ذاتی مقصد کے لیے تو یہ اس صورت میں بھی جائز نہیں جس میں آدمی کے لیے رشوت دینے کی گنجائش ہوتی ہے۔ البتہ مسجد کی زمینوں کو مسجد کے نام کرانے کے لیے سود کی رقم بطورِ رشوت دینے والا چونکہ اس کو ذاتی مقصد کے لیے استعمال نہیں کر رہا، بلکہ مسجد کا مال بچانے کے لیے استعمال کر رہا ہے جو رفاہی کام ہے، اس لیے اس کی گنجائش معلوم ہوتی ہے۔    

حوالہ جات
رد المحتار (2/ 339):
باب المصرف: قوله (أي مصرف الزكاة والعشر) يشير إلى وجه مناسبته هنا والمراد بالعشر ما ينسب إليه كما مر فيشمل العشر ونصفه المأخوذين من أرض المسلم وربعه المأخوذ منه إذا مر على العاشر أفاده ح. وهو مصرف أيضا لصدقة الفطر والكفارة والنذر وغير ذلك من الصدقات الواجبة كما في القهستاني.
فقه البیوع (1/468):
وکذلك تتعین النقود المغصوبة والمکتسبة بطریق محرم، مثل الربا. ولذلك وجب ردها علی مالکها، فإن تعذر ردها إلی مالکها، وجب التصدق بها بقصد التخلص منها، وإیصال ثواب الصدقةإلی مالکها. وبما أنه صدقة نافلة عن مالکها، فیجوز صرفها إلی من له قرابة الزواج أو الولاد مع الذي وجب علیه التصدق. وکذلك ینبغی أن لایشترط فیه التملیك، وقد ذکرت أدلة ذلك فی "فتاوی عثمانی".

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

      1/رجب المرجب/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے